🔹التحیات میں انگلی ہلانا؟
🔘سوال : فرقہ غیر مقلدین نسائی شریف کی ایک حدیث سے، التحیات میں انگلی کے ہلانے کی دلیل دیتے ہیں، تو کیا انکی دلیل صحیح ہے؟
🔘جواب : نہیں ! نسائی شریف، 141/42 میں وائل بن حجررضی الله تعالى عنہ کی حدیث کا ایک ٹکڑا جو فرقہ غیر مقلدین کے مطلب کا ہے وہ صرف اس کو پیش کرتے ہیں، پوری حدیث پیش نہیں کرتے، حالانکہ کہ اسی حدیث کے شروع میں نیت باندهتے وقت ، ہاتهوں کو کانوں تک اٹهانے کا ذکر ہے، جب کہ غیر مقلدین صرف کندهے تک ہی ہاتھ اٹھا تے ہیں..
🔘اسی طرح کرکٹ میچ کے کھلاڑیوں کی طرح ہتهیلیوں کو کہنیوں تک لے جا کر سینے پر ہاتھ باندھ تے ہیں. ..حالانکہ ہاتھ باندھ نے کہ سلسلے میں ہتهیلیوں کو کہنیوں تک پہونچانے کا ذکر کسی بهی حدیث میں نہیں ہے.خاص طور پر اس حدیث میں تو ہاتھ کو گٹے اور کلائی پر رکهنے کا ذکر ہے ...
🔴تو معلوم ہوا کہ غیر مقلدین حدیث نہیں بلکہ انگریزوں کے اس فارمولے ( do the new ) .کچھ نیا کرو .تاکہ لوگ تمہاری طرف متوجہ ہوں، پر عمل کر تے ہو ئے آدهی حدیث پر عمل کرتے ہیں اور آدهی حدیث سے اپنا پلو جهاڑ لیتے ہیں.
🔹حدیث کا و جز جس سے انگلی کا ہلانا معلم ہو تاہے.?
(ثم رفع اصبعہ فرایتہ یحرکها یدعوبها)
ترجمہ: پهر اپنی انگلی کو اوپر اٹها یا تو میں نے دیهکا کہ اس کوحرکت دیتے ہوئے شہادت کی دعا پڑهرہے تهے..
🔵اس حدیث میں حرکت کیسے دے رہے تھے ؟ دائیں بائیں ، یا پہر اوپر نیچے کررہے تهے ، اس کی تفصیل نہیں ملتی نہ کسی دوسری حدیث میں حرکت کا ذکر ہے ، نہ ہی کسی صحابی کا اس پر عمل ہے ، اس لئے کہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے کثرت سے صرف انگلی سے اشارہ ثابت ہے ، حرکت دینا ثابت نہیں ہے . حضرات صحابہ کرام کا معمول اس امت کے لئے معیار عمل ہے ، ان سے زیادہ سنت پر عمل کرنے والا کوئی نہیں ہو سکتا، حضرت وائل بن حجررضی الله تعالى عنہ جو اس حدیث کے راوی ہیں خود انکا اس پر عمل کہیں منقول نہیں یے..
وہ حدیثیں جن سے التحیات میں انگلی سے صرف اشارہ ثابت ہے حرکت نہیں.
1⃣راوی :وائل بن حجر، نسائی، 130 (ونصب اصبعہ للدعا)
ترجمہ:اور اپنی انگلی کو تشهد کی دعا پڑهنے کے لئے کهڑا کیا.
2⃣راوی:عبداللہ بن زبیر، نسائی 142 (کان یشیر باصبعہ اذا دعا ولا یحرکها)
ترجمہ:نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم جب دعا کرتے تو انگلی سے اشارہ کرتے ، حرکت نہیں دیتے تهے.
اس حدیث میں حرکت نہ دینے کی صراحت ہے
3⃣راوی:عبداللہ بن عمر، نسائی ، ا142.(ورفع اصبعہ التی تلی الابهام فدعا)
ترجمہ: اورآپ انگوٹھے کی قریب انگلی سے کو بلند فرمایا.)
4⃣راوی:عبداللہ بن زبیر، ابوداود ، 142 (ان النبی صلى الله عليه وسلم کان یشیر باصبعہ اذا دعا ، ولا یحرکها)
ترجمہ: جب (نماز میں تشهدکی)کی دعا پڑهتے تو انگلی سے اشارہ کرتے، حرکت نہیں دیتے.
اس حدیث میں بهی حرکت نہ دینے کی صراحت ہے.
5⃣راوی:عبداللہ بن زبیر، نسائی، 130، (ثم اشار باصبعہ)
تر جمہ: پهرانگلی سے اشارہ کرتے.
🔵ان کے علاوہ ، مسلم ، ابوداود ، نسائی، ابن ماجہ، کی روایتوں کو ملا کر مکمل پندرہ روایتیں ایسی ہیں جن سے التحیات میں صرف انگلی سے اشارہ کا ثبوت ملتا ہے ، اور یہی سنت طریقہ ہے ،
🔵امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل رحمهم الله، جن کو لا کهوں حدیثیں یاد تهیں، اسی سنت کے مطابق ان چاروں ائمہ مجتہدین نے بهی انگلی سے صرف اشارہ کرنے کا حکم نقل کیا ہے .
🔴اس کے باوجود غیر مقلدین کا انگلی ہلانے پر اصرار کرنا، انکی ہٹ دھرمی ہے اور اپنے علماء کی جامد تقلید ہے، جو انکے نزدیک شرک ہے. ان پندرہ سے زائد احادیث کو چهوڑ کر ، ایک غریب حدیث کے آدهے حصہ پر عمل کرنا اور آدهے کو چھوڑ دینا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ غیر مقلد فرقہ ایک فتنہ ہے جو امت میں انتشار پھیلانا چاہتا ہے،
اللہ اس فتنہ سے پوری امت کی حفاظت فرمائے. آمین.