Tuesday, 12 December 2023

اپنا محاسبہ ضرور کریں®

 اپنا محاسبہ ضرور کریں!

```الحدیث النبوی:```

قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم :۔۔۔فَیَبْقٰی فِیْہَا عُجَاجَۃٌ لَایَعْرِفُوْنَ مَعْرُوْفًا وَلَا یُنْکِرُوْنَ مُنْکَرًا۔


رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا:

(قیامت کے قریب)صرف ایسے ناکارہ لوگ باقی رہ جائیں گے ،جن کو نہ نیکی کی معرفت (پہنچان)ہو گی اور نہ وہ برائی کو برا سمجھیں گے۔ 


```مسند احمد:12905```

♨️ *گوانتانا موبے کا جہنم* *چوتھی قسط* 4️⃣ ⛓️〰️〰️ 𒆜

 

♨️ *گوانتانا موبے کا جہنم* 𒆜

بدنام زمانہ جیل گوانتانا موبے کا جہنم، سابق افغان سفیر ملّا عبدالسلام ضعیف کی کہانی۔۔۔


◉=⫸ *چوتھی قسط* 4️⃣ ⛓️〰️〰️


۔✿❀࿐≼ ❍••═┅┄


*فولادی پنجہ:*

دہشت گردی کا لفظ امریکیوں کے لیے ا یک فولادی پنجہ ہے جسے چاہتے ہیں وہ اس سے اس کا سر دے مارتے ہیں اور ان کی گرفتاری اور رہائی عمل میں لاتے اور ان کا یہ مکرہ و فریب دوسرے تمام ملکوں پر آشکار ہو چکا ہے۔ چار پانچ دن تک یومیہ تفتیش دو مرتبہ مکرر ہوتی رہی اور وہی پرانے سوالات پوچھے جاتے رہے لیکن میرے لیے یہاں اچھی بات یہ تھی کہ یہاں کوئی سختی، مار پیٹ اور سزا نہ تھی لیکن طبعی طور پر ایسے تنگ مکان میں زندہ رہنے کے باوجود زندگی بڑی مشکل سے بسر ہوتی ہے۔ ’’باتیں مت کرو اور ہلو مت‘‘


پانچ چھ دن کے بعد صبح ناشتے پر مجھے خاکی رنگ کا یونیفارم دیا گیا اور حکم دیا گیا کہ پرانے یونیفارم کی جگہ اسے پہن لو، یونیفارم تبدیل کرنے کے فوراً بعد منتقلی کا کام شروع ہوگیا۔ تمام قیدیوں کے ہاتھوں کو پلاسٹک کی رسی سے باندھا گیا اور ان کے سروں پر تھیلے چڑھائے گئے۔ تھیلوں کے تسموں کو ان کی گردنوں کے ساتھ باندھا گیا۔ آخری باری میری تھی۔ میرے ہاتھوں کو بھی رسیوں سے باندھا گیا، سر پر تھیلی چڑھائی گئی اور تہہ خانے سے اوپر لا کر ان قیدی بھائیوں کے ساتھ بٹھایا گیا جنہیں مجھ سے پہلے لایا گیا تھا۔ قیدیوں میں پانچ افغان تھے جن کے نام میں نے پہلے ذکر کر دیئے۔دو عرب، اور ایک امریکی مسلمان تھا اور نواں میں تھا۔


یاد رہے کہ میرے اور ان کے یونیفارم میں فرق تھا۔ میرا یونیفارم خاکی اور ان کا آسمانی کلر کا تھا۔ کافی دیر تک ہمیں وہاں اس بند حالت میں بٹھایا گیا ۔سخت رسی سے باندھنے اور دم گھنٹے کی شکایت کی وجہ سے ساتھیوں کی مسلسل چیخیں نکل رہی تھیں۔ کوئی قیدی پانی مانگ رہا تھا تو کوئی ہاتھوں کے درد کی شکایت کر رہا تھا۔ کوئی چیختا تھا کہ میرا دم گھٹ رہا ہے لیکن انسانیت نام کی کوئی چیز نہ تھی جو ہماری آوازوں کو سنتے اور ہمیں درد و قید سے چھڑا کر پانی پلاتے اور سروں سے تھیلے ہٹا کر ہمیں سانس لینے دیا جاتا۔ خالی فوجیوں کی آوازیں اور نعرے تھے جو ہمیں انگریزی زبان میں لتاڑتے تھے اور کہتے تھے (Shut up and Stop Movement) (باتیں مت کرو اور ہلو مت)یہاں مسلسل ہیلی کاپٹروں کی آوازیں گونج رہی تھیں۔ دو تین گھنٹے ہمیں یہاں رکھا گیا اور پھر ہیلی کاپٹروں کے اندر ڈال کر باندھا گیا۔ تقریبا 25منٹ سفر کے بعد ہمیں ایک اور جگہ منتقل کیا گیا ہمیں ہیلی کاپٹر سے نیچے زمین پر گرایا گیا اور وہاں موجود فوجیوں نے ہمارے جسموں کے ساتھ فٹ بال کھیلنا شروع کر دیا۔


*لاتیں اور گھونسے:*

مختلف فوجی آتے رہے اور ہمیں لاتوں اور گھونسوں سے سخت مارتے رہے ۔یہاں تک کہ فوجی اپنے بوٹوں سے ہماری انگلیاں زمین کے ساتھ روندتے رہے اور ہماری چیخیں بلند ہوتی رہیں ۔اسی اثناء میں ایک فوجی مجھے تلاش کرنے کے سلسلے میں میرے پاس آیا، میرے سر سے تھیلا اٹھایا اور پھر دوبارہ پہنا کر شناخت کے بعد چپ چاپ چلا گیا ۔میں نے اس وقت اپنے دوسرے قیدی بھائیوں کو دیکھا کہ وہ سخت تکلیف میں تھے۔امریکی فوجی ان کے جسموں سے لاتوں اور گھونسوں کے ساتھ کھیل رہے تھے اور ان کی چیخیں بلند ہو رہی تھیں۔ یہاں ہم اتنے سخت عذاب میں تھے کہ وضو اور نماز نہیں پڑھ سکتے تھے اور نہ ہی اشارے سے نماز پڑھ سکتے تھے۔ اس لیے کہ ہماری تھوڑی سی حرکت پر وہ ہم پر لاتوں کی بارش کرتے۔ ایک لمحہ لیے ہمیں چھوٹے پیشاب کے لیے اٹھایا گیا جس سے ہماری طبیعت قدرے سنبھل گئی۔کئی بار ہیلی کاپٹر لینڈنگ کرتے رہے اور بار بار پرواز کرتے رہے بالآخر رات کے شروع ہوتے ہی ایک ہیلی کاپٹر ہمارے بہت قریب آیا اور ہمیں اس کے اندر ڈال دیا گیا۔پل صراط اور حالت نزع: ہیلی کاپٹر کی منتقلی پل صراط کا پل اور حالت نزع کے برابر ہوتا تھا ۔اتنا سخت عذاب تھا کہ جسے میں آج بھی تصور نہیں کر سکتا۔ گوانتاناموبے میں ہمیں ہمیشہ اپنی منتقلی کی فکر ہوتی تھی کہ وہ خدانخواستہ دوسری جگہ منتقل کس طرح ہوگی۔ہمیں ہیلی کاپٹر کے اندر ہاتھ پاؤں سے مضبوط باندھا گیا ۔اس طرح کے ڈبل پٹے ہمارے سینے اور رانوں کے اوپر لپیٹ کر جہاز کے دوسرے حصوں سے مضبوط باندھ دیا گیا۔ ایسے میں نیم لیٹے اور نیم بیٹھے ہوتے تھے نہ صحیح طرح لیٹ سکتے تھے اور نہ ہی صحیح طرح بیٹھ سکتے تھے۔


*بگرام ائیرپورٹ:*

ریڑھ کی ہڈی میں شدید تکلیف ہو رہی تھی اور سانس گھٹ رہا تھا لیکن صبر کے سوا کوئی راستہ نہ تھا ۔ہم ایک دوسرے کے ساتھ سہارا لینے لگ جاتے تو فوجی وحشی بوٹ سے سخت مارتے، ساتھیوں کو پیشاب اور پیاس کے تقاضے کے باوجود اجازت نہیں ملتی تھی اور ترجمان بھی نہ تھا یا پھر وہ بھی فوجیوں کے ساتھ ملا ہوتا تھا۔ راستے میں دو جگہ ہیلی کاپٹر اترا اور پھر اڑان بھری کافی دیر بعد ہیلی کاپٹر ایک جگہ اترا اور یہ بگرام ائیرپورٹ تھا۔ ’’امریکا عدل و انصاف کا گھر ہے‘‘


مجھے فوجیوں نے بڑی بے دردی کے ساتھ نیچے پکی زمین پر پھینکا۔ چند فوجی یہ نعرے لگا رہے تھے (This is the big one) یہ ان کا بڑا ہے۔ پھر انہوں نے مجھ پر لاتوں اور گھونسوں کی بارش شروع کر دی دی۔ میں نے تو کلاشنکوف کے بٹ بھی محسوس کئے میرے جسم سے کپڑے الگ ہوگئے خالی سر پر تھیلا اور ہاتھ پاؤں میں بیڑی لگی ہوئی تھی۔ تازہ تازہ برف باری ہو چکی تھی چند گھنٹوں کی مار پیٹ کے بعد انہوں نے مجھے ننگا برف پر پھینک دیا۔ فوجیوں کی موجودگی میں ایک خاتون مسلسل غزل پڑھ رہی تھی اور فوجی لوگ میرے جسم کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ غزلوں کا ایک ٹکڑا ابھی تک مجھے یاد ہے وہ گا رہی تھی: ’’امریکا عدل و انصاف کا گھر ہے اور عدل و انصاف کا خواہاں ہے ، ہر آدمی کے لیے انصاف چاہتا ہے۔‘‘(بشرطیکہ مسلمان نہ ہو کیونکہ مسلمان ان کے نزدیک انصاف کا کوئی استحقاق ہی نہیں رکھتا) اس وجہ سے وہ مسلمانوں کے ساتھ ایسا وحشی طریقہ روا رکھتے ہیں اور اس طرح کی غزل گاتے رہتے ہیں۔ ایسا وحشی طریقہ کہ جس کا نہ تو عدل و انصاف سے کوئی واسطہ ہے اور نہ ہی کوئی دوسرا اسے عدل و انصاف کہہ سکتا ہے۔


برف پر شدید سردی تھی جسم بالکل شل ہو کر کانپتا تھا اور فوجی مسلسل چیختے تھے Stop Movement(حرکت مت کرو، مت ہلو) لیکن شدید سردی کی وجہ سے جسم کی لرزش اور کپکپاہٹ روکنا میرے بس میں نہ تھا آخر کار تین چار گھنٹے بعد شدید سردی کی وجہ سے میں بے ہوش ہوگیا اور پھر مجھے اپنا پتہ نہ چل سکا۔ جب مجھے ہوش آیا تو میں ایک ایسے بڑے کمرے میں پڑا ہوا تھا جس میں دھوپ پڑتی تھی۔ تقریبا یہ دن کے نو دس بجے کا وقت تھا میرے جسم میں شدید درد تھا جو میرے لیے بالکل ناقابل برداشت تھا۔


♾🍃🌸 🌸🍃♾

 *جاری ہے*۔۔۔۔۔۔

🔹التحیات میں انگلی ہلانا کیسا ہے ؟

 🔹التحیات میں انگلی ہلانا؟


🔘سوال : فرقہ غیر مقلدین نسائی شریف کی ایک حدیث سے، التحیات میں انگلی کے ہلانے کی دلیل دیتے ہیں، تو کیا انکی دلیل صحیح ہے؟ 


🔘جواب : نہیں ! نسائی شریف، 141/42 میں وائل بن حجررضی الله تعالى عنہ کی حدیث کا ایک ٹکڑا جو فرقہ غیر مقلدین کے مطلب کا ہے وہ صرف اس کو پیش کرتے ہیں، پوری حدیث پیش نہیں کرتے، حالانکہ کہ اسی حدیث کے شروع میں نیت باندهتے وقت ، ہاتهوں کو کانوں تک اٹهانے کا ذکر ہے، جب کہ غیر مقلدین صرف کندهے تک ہی ہاتھ اٹھا تے ہیں..


🔘اسی طرح کرکٹ میچ کے کھلاڑیوں کی طرح ہتهیلیوں کو کہنیوں تک لے جا کر سینے پر ہاتھ باندھ تے ہیں. ..حالانکہ ہاتھ باندھ نے کہ سلسلے میں ہتهیلیوں کو کہنیوں تک پہونچانے کا ذکر کسی بهی حدیث میں نہیں ہے.خاص طور پر اس حدیث میں تو ہاتھ کو گٹے اور کلائی پر رکهنے کا ذکر ہے ...


🔴تو معلوم ہوا کہ غیر مقلدین حدیث نہیں بلکہ انگریزوں کے    اس فارمولے ( do the new ) .کچھ نیا کرو .تاکہ لوگ تمہاری طرف متوجہ ہوں، پر عمل کر تے ہو ئے آدهی حدیث پر عمل کرتے ہیں اور آدهی حدیث سے اپنا پلو جهاڑ لیتے ہیں.

🔹حدیث کا و جز جس سے انگلی کا ہلانا معلم ہو تاہے.?

(ثم رفع اصبعہ فرایتہ یحرکها یدعوبها)

ترجمہ: پهر اپنی انگلی کو اوپر اٹها یا تو میں نے دیهکا کہ اس کوحرکت دیتے ہوئے شہادت کی دعا پڑهرہے تهے.. 


🔵اس حدیث میں حرکت کیسے دے رہے تھے ؟ دائیں بائیں ، یا پہر اوپر نیچے کررہے تهے ، اس کی تفصیل نہیں ملتی نہ کسی دوسری حدیث میں حرکت کا ذکر ہے ، نہ ہی کسی صحابی کا اس پر عمل ہے ، اس لئے کہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے کثرت سے صرف انگلی سے اشارہ ثابت ہے ، حرکت دینا ثابت نہیں ہے . حضرات صحابہ کرام کا معمول اس امت کے لئے معیار عمل ہے ، ان سے زیادہ سنت پر عمل کرنے والا کوئی نہیں ہو سکتا، حضرت وائل بن حجررضی الله تعالى عنہ جو اس حدیث کے راوی ہیں خود انکا اس پر عمل کہیں منقول نہیں یے..


وہ حدیثیں جن سے التحیات میں  انگلی سے صرف اشارہ ثابت ہے حرکت نہیں.


1⃣راوی :وائل بن حجر، نسائی، 130 (ونصب اصبعہ للدعا)

ترجمہ:اور اپنی انگلی کو تشهد کی دعا پڑهنے کے لئے کهڑا کیا.


2⃣راوی:عبداللہ بن زبیر، نسائی 142 (کان یشیر باصبعہ اذا دعا ولا یحرکها)

ترجمہ:نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم جب دعا کرتے تو انگلی سے اشارہ کرتے ، حرکت نہیں دیتے تهے.

اس حدیث میں حرکت نہ دینے کی صراحت ہے


3⃣راوی:عبداللہ بن عمر، نسائی ، ا142.(ورفع  اصبعہ التی تلی الابهام فدعا)

ترجمہ: اورآپ انگوٹھے کی قریب انگلی سے کو بلند فرمایا.)


4⃣راوی:عبداللہ بن زبیر، ابوداود ، 142 (ان النبی صلى الله عليه وسلم کان یشیر باصبعہ اذا دعا ، ولا یحرکها)

ترجمہ: جب (نماز میں تشهدکی)کی دعا پڑهتے تو انگلی سے اشارہ کرتے، حرکت نہیں دیتے.

اس حدیث میں بهی حرکت نہ دینے کی صراحت ہے.


5⃣راوی:عبداللہ بن زبیر، نسائی، 130، (ثم اشار باصبعہ)

تر جمہ: پهرانگلی سے اشارہ کرتے. 


🔵ان کے علاوہ ، مسلم ، ابوداود ، نسائی، ابن ماجہ، کی روایتوں کو ملا کر مکمل پندرہ روایتیں ایسی ہیں جن سے التحیات میں صرف انگلی سے اشارہ کا ثبوت ملتا ہے ، اور یہی سنت طریقہ ہے ،

🔵امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل رحمهم الله، جن کو لا کهوں حدیثیں یاد تهیں، اسی سنت کے مطابق ان چاروں ائمہ مجتہدین نے بهی انگلی سے صرف اشارہ کرنے کا حکم نقل کیا ہے .


🔴اس کے باوجود غیر مقلدین کا انگلی ہلانے پر اصرار کرنا، انکی ہٹ دھرمی ہے اور اپنے علماء کی جامد تقلید ہے، جو انکے نزدیک شرک ہے.  ان پندرہ سے زائد احادیث کو چهوڑ کر ، ایک غریب حدیث کے آدهے حصہ پر عمل کرنا اور آدهے کو چھوڑ دینا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ غیر مقلد فرقہ ایک فتنہ ہے جو امت میں انتشار پھیلانا چاہتا ہے، 


اللہ اس فتنہ سے پوری امت کی حفاظت فرمائے. آمین.

Wednesday, 6 December 2023

💕💕 ﺧﺎﻭﻧﺪ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﻮ ﭘﮩﻠﯽ ﻣﻼﻗﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﻧﺼﯿﺤﺖ ﮐﯽ,,💕💕

 *ﺍﯾﮏ ﺧﺎﻭﻧﺪ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﻮ ﭘﮩﻠﯽ ﻣﻼﻗﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﻧﺼﯿﺤﺖ ﮐﯽ۔*


ﮐﮧ ﭼﺎﺭ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﮐﺎ ﺧﯿﺎﻝ ﺭﮐﮭﻨﺎ :

ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺕ ﯾﮧ ﮐﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﺁﭖ ﺳﮯ ﺑﮩﺖ ﻣﺤﺒﺖ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ

ﺁﭖ ﮐﻮ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﭘﺴﻨﺪ ﮐﯿﺎ۔ ﺍﮔﺮ ﺁﭖ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭼﮭﯽ ﻧﮧ ﻟﮕﺘﯿﮟ

ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮑﺎﺡ ﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﮔﮭﺮ ﮨﯽ ﻧﮧ ﻻﺗﺎ۔ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺑﯿﻮﯼ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ

ﮔﮭﺮ ﻻﻧﺎ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﺎ ﺛﺒﻮﺕ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﺁﭖ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮨﮯ ﺗﺎ ﮨﻢ

ﻣﯿﮟ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮨﻮﮞ ﻓﺮﺷﺘﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﮞ ﺍﮔﺮ ﮐﺴﯽ ﻭﻗﺖ ﻣﯿﮟ ﻏﻠﻄﯽ ﮐﺮ

ﺑﯿﭩﮭﻮﮞ ﺗﻮ ﺗﻢ ﺍﺱ ﺳﮯ ﭼﺸﻢ ﭘﻮﺷﯽ ﮐﺮ ﻟﯿﻨﺎ۔ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﻣﻮﭨﯽ

ﮐﻮﺗﺎﮨﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﻧﻈﺮ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﮐﺮ ﺩﯾﻨﺎ۔

ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺑﺎﺕ ﯾﮧ ﮐﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﮈﮬﻮﻝ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﻧﮧ ﺑﺠﺎﻧﺎ۔ ﺑﯿﻮﯼ ﻧﮯ

ﮐﮩﺎ، ﮐﯿﺎ ﻣﻄﻠﺐ؟ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺟﺐ ﺑﺎﻟﻔﺮﺽ ﺍﮔﺮ ﻣﯿﮟ ﻏﺼﮯ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﮞ

ﺗﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺟﻮﺍﺏ ﻧﮧ ﺩﯾﻨﺎ۔ ﻣﺮﺩ ﻏﺼﮯ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ

ﮐﭽﮫ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﺎ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﺁﮔﮯ ﺳﮯ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﯽ ﺑﮭﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﭼﻞ ﺭﮨﯽ ﮨﻮ ﺗﻮ

ﯾﮧ ﭼﯿﺰ ﺑﮩﺖ ﺧﻄﺮﻧﺎﮎ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ۔ ﺍﮔﺮ ﻣﺮﺩ ﻏﺼﮯ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ۔ ﺗﻮ ﻋﻮﺭﺕ

ﺍﻭﺍﺋﮉ ﮐﺮ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﻠﻔﺮﺽ ﻋﻮﺭﺕ ﻏﺼﮯ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻣﺮﺩ ﺍﻭﺍﺋﮉ ﮐﺮ

ﺟﺎﺋﮯ۔ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﻭﻗﺖ ﻣﯿﮟ ﻏﺼﮧ ﺁ ﺟﺎﻧﺎ ﯾﻮﮞ ﮨﮯ ﮐﮧ

ﺭﺳﯽ ﮐﻮ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﮐﮭﯿﻨﭽﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ۔ ﺍﯾﮏ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ

ﺭﺳﯽ ﮐﻮ ﮐﮭﯿﻨﭽﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﮈﮬﯿﻼ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﮟ ﺗﻮ ﻭﮦ

ﻧﮩﯿﮟ ﭨﻮﭨﺘﯽ ﺍﮔﺮ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﮐﮭﯿﻨﭽﯿﮟ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﮐﮭﭻ ﭘﮍﻧﮯ ﺳﮯ

ﻭﮦ ﺭﺳﯽ ﭨﻮﭦ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ۔

ﺗﯿﺴﺮﯼ ﻧﺼﯿﺤﺖ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺭﺍﺯ ﻭ ﻧﯿﺎﺯ ﮐﯽ ﮨﺮ ﺑﺎﺕ

ﮐﺮﻧﺎ ﻣﮕﺮ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﺷﮑﻮﮮ ﺍﻭﺭ ﺷﮑﺎﺋﯿﺘﯿﮟ ﻧﮧ ﮐﺮﻧﺎ۔ ﭼﻮﻧﮑﮧ ﺍﮐﺜﺮ

ﺍﻭﻗﺎﺕ ﻣﯿﺎﮞ ﺑﯿﻮﯼ ﺁﭘﺲ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﺑﮩﺖ ﺍﭼﮭﺎ ﻭﻗﺖ ﮔﺰﺍﺭ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔

ﻣﮕﺮ ﻧﻨﺪ ﮐﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺳﺎﺱ ﮐﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﻓﻼﮞ ﮐﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ، ﯾﮧ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮯ

ﺍﻧﺪﺭ ﺯﮨﺮ ﮔﮭﻮﻝ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﺷﮑﻮﮮ ﺷﮑﺎﺋﺘﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﻤﮑﻨﮧ ﺣﺪ

ﺗﮏ ﮔﺮﯾﺰ ﮐﺮﻧﺎ۔

ﺍﻭﺭ ﭼﻮﺗﮭﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﮧ ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ﺩﻝ ﺍﯾﮏ ﮨﮯ ﯾﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﺒﺖ ﮨﻮ

ﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ ﯾﺎ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﻧﻔﺮﺕ۔ ﺍﯾﮏ ﻭﻗﺖ ﻣﯿﮟ ﺩﻭ ﭼﯿﺰﯾﮟ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ

ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮦ ﺳﮑﺘﯿﮟ۔ ﺍﮔﺮ ﺧﻼﻑِ ﺍﺻﻮﻝ ﻣﯿﺮﯼ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺎﺕ ﺑﺮﯼ ﻟﮕﮯ ﺗﻮ ﺩﻝ

ﻣﯿﮟ ﻧﮧ ﺭﮐﮭﻨﺎ، ﻣﺠﮭﮯ ﺳﮯ ﺟﺎﺋﺰ ﻃﺮﯾﻖ ﺳﮯ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻧﺎ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺑﺎﺗﯿﮟ

ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﺳﮯ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺷﯿﻄﺎﻥ ﮐﮯ ﻭﺳﻮﺳﻮﮞ ﮐﺎ ﺷﮑﺎﺭ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺩﻝ

ﻣﯿﮟ ﻧﻔﺮﺗﯿﮟ ﮔﮭﻮﻟﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﻌﻠﻘﺎﺕ ﺧﺮﺍﺏ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﺎ ﺭﺥ ﺑﺪﻝ

ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ🫧

(+ *🔸ضدی خواتین ناکام ہیں ...🔸*,,🥰

(+ *🔸ضدی خواتین ناکام ہیں ...🔸*

ضدی عورتیں اپنی شادیوں میں بلکہ شوہر کے ساتھ اپنے تعلقات میں بھی ناکام ہوجاتی ہیں۔

ایسی خواتین جو شوہر کے جذبات کا خیال نہیں رکھتیں، اور معاملات میں لچک نہیں رکھتیں ، ان کی شادیاں مکمل ناکام ہوجا تی ہیں ۔ بلکہ 
ان کی زندگیاں بھی ناکام ہو جاتی ہیں ۔ کیوں؟

*(1) ...* وہ اپنے شوہر کے ساتھ اپنی انا کی جنگ لڑتی رہتیں ہیں ، شوہر پر قابو پانے کی کوشش میں لگی رہتی ہیں۔ اس جنگ میں ہمیشہ وہ ہار جاتی ہیں،وہ کبھی یہ جنگ نہیں جیت سکتیں ۔ کیونکہ مرد ضد کرنے والی بیوی کے سامنے اور زیادہ ضدی ہوجاتے ہیں ، اور وہ ایک نرم اور فرمانبردار عورت کے سامنے بہت زیادہ نرم ہو جاتے ہیں۔

*(2) ...* ایک ضدی عورت سوچتی ہے کہ وہ اپنی رائے پر اصرار کر کے جیت جائیگی ، اور وہ کسی بھی مخالفت کا سامنا کرلیگی ۔ جبکہ وہ یہ بھول جاتی ہے کہ یہ جنگ وہ اپنی ضد اور زبان سے جیت بھی جائے تو وہ اس دل سے محروم ہوجائیگی جو اسے پیار کرتا تھا اور اس کی فکر میں لگا رہتا تھا۔

*(3) ...* تمام ثقافتوں اور حکمتوں میں ایک آسان ، نرم ، ہمدرد ، صابرہ اور در گذر کرنے والی عورت کی تعریف کی گئی ہے ۔ یہاں تک کہ بڑے بزرگوں نے ایسی عورت کی تعریف کی ہے جو اپنے شوہر کا احترام کرتی ہے اور نرمی اور حکمت کے ساتھ بولتی ہے ، اور اس کے نتیجے میں وہ اس سے ہمیشہ محبت کرے گا اور اسے کبھی دور نہیں جائیگا۔

*(4) ...* وہ عورت جو اپنے شوہر کی بات مان لیتی ہے اور طوفان کے گذرنے تک صبر کرلیتی ہے وہ عقلمند عورت ہے ، اپنے کنبہ کو بکھرنے سے بچا لیتی ہے  اور وہ عورت جو خشک چھڑی کی طرح بے لچک کھڑی ہوتی ہے وہ ٹوٹ جاتی ہے ، جسکا دوبارہ جڑنا ممکن نہیں ۔

*(5) ...* سمجھوتہ نہ کرنے والی عورت اپنی رائے سے چمٹی رہتی ہے وہ مسلسل اپنی فتح کا وہم برقرار رکھنے کی کوشش کرتی ہے: اس زعم میں رہتی ہے کہ میں جیت گئی اور آپ ہار گئے ، میں ٹھیک ہوں اور آپ غلط ہیں ایسی عورت دوسروں کو تباہ کرنے سے پہلے خود کو تباہ کر دیتی ہے اور وہ دنیا اور آخرت میں غمزدہ اور مایوسی کی زندگی بسر کرتی ہے چونکہ اسے پیار اور محبت چاہئے جو ہارا ہوا مرد نہیں دے سکتا اسکی زبانی جیت حقیقت میں اسکی زندگی کی ہار تھی- 

ازدواجی مشاورت کے لمبے تجربات
 میں نے دیکھا کہ ضدی خواتین کی زندگی ہمیشہ مشکلات سے دو چار ہوتی ہے اور ان کی خاندانی اور معاشرتی زندگی ہمیشہ تلخیوں سے بھری رہتی ہے ۔

Tuesday, 5 December 2023

*خود اعتمادی کو بڑھانے کے طریقے*

 ● آپ اپنے ذہن اور خیالات کے آئینے میں اپنے آپ کو ہمیشہ ایک کامیاب شخص کی حیثیت سے دیکھیں اس تصویر کو کبھی اوجھل نہ ہونے دیں کبھی اپنی ناکامی کے بارے میں کوئی خیال اپنے ذہن میں نہ لائیں اپنی ذاتی تصویر کی حقیقت پر کبھی شبہ نہ کریں ورنہ یہ چیز آپ کیلئے بڑی خطرناک ثابت ہو گی لہٰذا آپ ہمیشہ خود کو ایک کامیاب شخص کی حیثیت سے دیکھیں خواہ حالات کتنے ہی غیر موافق کیوں نہ ہوں

● جب کبھی آپ کی صلاحیتوں سے متعلق کوئی تخریبی خیال آپ کے دماغ میں آئے تو فوراً اس کی مقابلے میں ایک تعمیری خیال لا کر اسے ذہن سے ختم کر دیں

● خیالوں ہی خیالوں میں مت سوچیں کہ فلاں کام کرنے کے راستے میں یہ دشواریاں ہوں گی ان خیالی دشواریوں سے بچیں اصلی دشواریوں کا بغور مطالعہ کریں اور ان پر قابو پانے کی کوشش کریں

● دوسرے لوگوں کے غم سے زیادہ متاثر نہ ہوں اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش مت کریں یاد رکھیں کہ بعض لوگ بظاہر تو خود کو پُر اعتماد ظاہر کرتے ہیں مگر اندر سے ان کی وہی حالت ہوتی ہے جو آپ کی ہے

● دن میں دس مرتبہ یہ ہمہ گیر الفاظ ضرور دہرائیں کہ اگر رب کریم ہمارے ساتھ ہے تو پھر کون ہمارے خلاف ہو سکتا ہے

● اپنے اندر احساس کمتری اور خود اعتمادی کے فقدان کو سمجھنے کی کوشش کریں یہ چیزیں اکثر اوقات بچپن میں انسان کے ذہن پر سوار ہو جاتی ہیں اپنے آپ کو پہچاننے سے بہت سی تکالیف کا علاج خود بخود ہو جاتا ہے

● اگر ہو سکے تو اونچی آواز میں ان الفاظ کو ہر روز دن میں دس بار دہرائیں کہ میں اللہ کی مدد سے ہر کام کر سکتا ہوں

● اپنی صلاحیتوں کا صحیح اندازہ لگانے کی کوشش کریں پھر انہیں دس فیصد بڑھا دیں خود پسند بننے کی کوشش مت کریں بلکہ اپنی عزت کرنا سیکھیں

● خود کو اللہ کی رضا پر چھوڑ دیں پھر یقین کر لیں کہ اب وہ آپ کے اندر کی تعمیری قوتوں کا محرک بن رہا ہے

● اپنے آپ کو ہر وقت یہ یاد دلاتے رہیں کہ اللہ کی ذات آپ کے ساتھ ہے لہٰذا دنیا کی کوئی طاقت آپ کو شکست نہیں دے سکتی جائیے اب خود اعتمادی کا ہتھیار آپ کے ساتھ ہے آپ زندگی کے کسی میدان میں کبھی ناکا م نہیں رہیں گے خود اعتماد ی ہی وہ خوبی ہے جو آپ کو پُر وقار بنائے گی۔

🌹🌴جنتوں میں لے جائے گا۔

 🌹🌴جنتوں میں لے جائے گا۔


*🪷🌷ایمان اور نیک اعمال والوں کو اللہ تعالٰی لہریں لیتی ہوئی نہروں والی جنتوں میں لے جائے گا ۔ اللہ جو ارادہ کرے اسے کرکے رہتا ہے۔*


📘سورہ الحج آیت نمبر 14

*تازہ ترین خبریں لہذا احتیاط کریں*

 *تازہ ترین خبریں لہذا احتیاط کریں* 


*واٹس ایپ کی نئی پالیسی کے مطابق جو بندہ گروپ سے لیفٹ ہوگا یا جس کو ریموو کیا جائے گا وہ 60 دن کے لیے گروپ میں ایڈ نہیں ہو سکے گا* ...

👆👆👆👆👆

Monday, 4 December 2023

*خود اعتمادی کو بڑھانے کے طریقے*

 ● آپ اپنے ذہن اور خیالات کے آئینے میں اپنے آپ کو ہمیشہ ایک کامیاب شخص کی حیثیت سے دیکھیں اس تصویر کو کبھی اوجھل نہ ہونے دیں کبھی اپنی ناکامی کے بارے میں کوئی خیال اپنے ذہن میں نہ لائیں اپنی ذاتی تصویر کی حقیقت پر کبھی شبہ نہ کریں ورنہ یہ چیز آپ کیلئے بڑی خطرناک ثابت ہو گی لہٰذا آپ ہمیشہ خود کو ایک کامیاب شخص کی حیثیت سے دیکھیں خواہ حالات کتنے ہی غیر موافق کیوں نہ ہوں

● جب کبھی آپ کی صلاحیتوں سے متعلق کوئی تخریبی خیال آپ کے دماغ میں آئے تو فوراً اس کی مقابلے میں ایک تعمیری خیال لا کر اسے ذہن سے ختم کر دیں

● خیالوں ہی خیالوں میں مت سوچیں کہ فلاں کام کرنے کے راستے میں یہ دشواریاں ہوں گی ان خیالی دشواریوں سے بچیں اصلی دشواریوں کا بغور مطالعہ کریں اور ان پر قابو پانے کی کوشش کریں

●  دوسرے لوگوں کے غم سے زیادہ متاثر نہ ہوں اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش مت کریں یاد رکھیں کہ بعض لوگ بظاہر تو خود کو پُر اعتماد ظاہر کرتے ہیں مگر اندر سے ان کی وہی حالت ہوتی ہے جو آپ کی ہے

● دن میں دس مرتبہ یہ ہمہ گیر الفاظ ضرور دہرائیں کہ اگر رب کریم ہمارے ساتھ ہے تو پھر کون ہمارے خلاف ہو سکتا ہے

● اپنے اندر احساس کمتری اور خود اعتمادی کے فقدان کو سمجھنے کی کوشش کریں یہ چیزیں اکثر اوقات بچپن میں انسان کے ذہن پر سوار ہو جاتی ہیں اپنے آپ کو پہچاننے سے بہت سی تکالیف کا علاج خود بخود ہو جاتا ہے

● اگر ہو سکے تو اونچی آواز میں ان الفاظ کو ہر روز دن میں دس بار دہرائیں کہ میں اللہ کی مدد سے ہر کام کر سکتا ہوں

● اپنی صلاحیتوں کا صحیح اندازہ لگانے کی کوشش کریں پھر انہیں دس فیصد بڑھا دیں خود پسند بننے کی کوشش مت کریں بلکہ اپنی عزت کرنا سیکھیں

● خود کو اللہ کی رضا پر چھوڑ دیں پھر یقین کر لیں کہ اب وہ آپ کے اندر کی تعمیری قوتوں کا محرک بن رہا ہے

● اپنے آپ کو ہر وقت یہ یاد دلاتے رہیں کہ اللہ کی ذات آپ کے ساتھ ہے لہٰذا کوئی طاقت آپ کو شکست نہیں دے سکتی جائیے اب خود اعتمادی کا ہتھیار آپ کے ساتھ ہے آپ زندگی کے کسی میدان میں کبھی ناکا م نہیں رہیں گے خود اعتماد ی ہی وہ خوبی ہے جو آپ کو پُر وقار بنائے گی۔

والدین 31 دسمبر 2023 تک اپنے بچوں کے فارم-ب یا برتھ سرٹیفکیٹ ضروری بنالے

 *‏تمام والدین 31 دسمبر 2023 تک اپنے بچوں کے فارم-ب یا برتھ سرٹیفکیٹ ضروری بنالے۔ کیونکہ انے والے 2024 سال میں نئے قانون کے مطابق سات (7) سال تک کے بچوں کو فارم-ب یا برتھ سرٹیفیکیٹ جاری ہوگا۔ 7 سال سے اوپر کے بچوں کیلئے میڈیکل سرٹیفیکیٹ لازمی چاہئیے ہوگا۔ جس میں اپ والدین کا پیسہ اور وقت دونوں لگے گا۔*

♨️ *گوانتانا موبے کا جہنم* 𒆜 ◉=⫸ *تیسری قسط* 3️⃣⛓️〰️〰️

 اور مجھے امریکہ کے حوالے کردیا گیا ’’خدا حافظ‘‘ کے الفاظ سننے کے بعد میں نے کچھ لوگوں کی آوازیں سنیں جو انگریزی میں باتیں کر رہے تھے۔ پھر اچانک وہ لوگ ریچھوں کی طرح مجھ پر حملہ آور ہوگئے اور مجھ پر لاتوں، گھونسوں اور مکوں کی بارش کرنے لگے۔ یہ سب اتنا کچھ اچانک تھا کہ مجھے کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ میرے کپڑے پھاڑنے کی کوشش کی گئی، کبھی اوندھے مہ لٹا دیا جاتا، کبھی کھڑا کرکے دھکا دے دیا جاتا، میرے کپڑے چاقوؤں کی مدد سے پھاڑ دیئے گئے اس دوران میری آنکھوں پر بندھی پتی اتر گئی۔ میں نے دیکھا کہ ایک طرف پاکستانی فوجی قطار بنائے کھڑے تھے جبکہ ساتھ ہی آفیسرز کی گاڑیاں تھیں جن میں ایک پر جھنڈا لگا ہوا تھا۔


*تماشہ دیکھتے رہے:*

امریکیوں نے مجھے مارا پیٹا اور بے لباس کر دیا مگر اسلام کے یہ محافظ ’’میرے سابقہ دوست‘‘ یہ تماشہ دیکھتے رہے اور ان کی زبان پر لگے تالے میرے لیے نا قابل فراموش ہیں۔انہوں نے میری حوالگی کے سارے تقاضے پورے کر رکھے تھے۔ یہ وہ لمحات تھے جن کو میں قبر میں بھی نہ بھول سکوں گا۔ میں کوئی قاتل، چور، ڈاکو یا قانون کا مجرم نہیں تھا (بلکہ ایک مسلمان ملک کا باقاعدہ سفیر تھا) مجھے بغیر کسی جرم کے امریکا کے حوالے کیا جا رہا تھا۔ وہاں موجود آفیسرز کم از کم اتنا تو کہہ سکتے تھے (مگر غلام اتنا کہنے کی ہمت بھی نہیں رکھتے) کہ یہ ہمارے مہمان ہیں، ہماری موجودگی میں ان کے ساتھ یہ سلوک نہ کیا جائے۔ وحشی، متعصب اور بے رحم امریکی فوجیوں نے ایسی حالت میں مجھے زمین پر پٹخ دیا کہ میرا جسم ننگا تھا، (ننگی اور مادر پدر آزاد تہذیب کے پروردہ یافتوں کے لیے ایک مسلمان کا برہنہ ہونا کیا حیثیت رکھتا ہے؟) پھر مجھے ہیلی کاپٹر میں دھکیلا جہاں میرے ہاتھ پاؤں زنجیروں سے کس کے باندھ دیئے گئے اور آنکھوں پر پٹی بھی دوبارہ باندھی گئی۔ انہوں نے اسی پر اکتفا نہ کیا میرے چہرے کو سیاہ تھیلے سے بھی ڈھانپ دیا۔ پھر میرے ارد گرد سر سے پاؤں تک رسی باندھی اور ہیلی کاپٹر کے وسط میں زنجیر سے باندھ دیا۔ اے عزارئیل! کہاں ہو؟


ہیلی کاپٹر فضا میں بلند ہوگیا۔ میں جب حرکت کی کوشش کرتا تو زور دار لات پڑتی۔ مجھے ایسا لگا کہ آنے والے چند لمحوں میں میری روح اور جسم کا رشتہ ختم ہونے والا ہے۔مجھے یہ یاد نہیں کہ میں کتنی دیر تک اس کرب میں مبتلا رہا۔ آخر کار ہیلی کاپٹ ایک جگہ اتر گیا۔ وحشی امریکی درندوں نے ہیلی کاپٹر سے گھسیٹتے ہوئے مجھے نیچے پھینک دیا۔ جس کے ساتھ ہی وہاں پہلے سے موجود دوسرے امریکی بھی مجھ پر تابڑ توڑ حملے کرنے لگے اور میرا وہ حال کیا جو بیان سے باہر ہے۔ الٹا لٹا کر میرے اوپر چار پانچ افراد بیٹھ گئے اور ایسے باتیں کرنے لگے جیسے کسی اجلا س میں بیٹھے ہوں۔ میری سانس نہیں نکل رہی تھی۔ بے اختیار دل ہی دل میں حضرت عزرائیل کو پکار رہا تھا کہ اے عزارئیل! کہاں ہو؟؟؟؟


*بحری بیڑے میں:*

مجھے اس جگہ دو گھنٹے اسی کرب میں رکھا گیا پھر دوسرے ہیلی کاپٹر میں سوار کرا کر ایک آہنی کرسی سے باندھ دیا گیا۔ اب کی بار مجھے مار نہیں پڑ رہی تھی۔25/20منٹ بعد ہیلی کاپٹر نیچے اترا۔ مجھے اندر ہی کھڑا کیا گیا۔ یہاں متعدد جہازوں کی آوازیں مسلسل آرہی تھیں۔ مجھے نیچے اتار کر چہرے سے نقاب ہٹا دیا گیا اور آنکھوں کی پٹی بھی اتار دی گئی۔ دیکھا کہ چند امریکی فوجی کھڑے ہیں۔ بائیں جانب ایک قید خانہ نظر آیا جس میں چند قیدیوں کو باندھا گیا تھا۔ اسی جگہ مجھے بھی ڈال دیاگیا یہاں موجود ایک چھوٹے سے واش روم میں مجھے منہ ہاتھ دھونے کو کہا گیا مگر میرے ہاتھوں میں سکت نہیں تھی (کہ میں اپنے ہاتھ دھو لیتا) میں نے اتنا کیا کہ خود کو گیلا کر دیا پھر مجھے ایک چادر دے کر ایسے کمرے میں لے جایا گیا جو دو میٹر لمبا اور ایک میٹر اونچا تھا۔ رفع حاجت کی جگہ بھی اتنی سی جگہ میں تھی۔ کمرے کی دیواریں آہنی تھیں اوپر سے مضبوط آہنی جالیاں بھی لگائی گئی تھیں۔مجھے سونے کا کہا گیا مگر نہ بستر تھا نہ تکیہ حیران تھا کہ میں کہاں لایا گیا ہوں اور مزید کس سلوک کا سامنا کرنا پڑے گا؟


ایک فوجی کمرے کے سامنے کھڑا تھا خوب سوچ بچار کے بعد مجھے علم ہو اکہ یہ ایک بالکل بند جگہ تھی تین اور چھوٹے کمرے تھے اور ایک کلینک ، ایک میڈیکل اسٹور تھا جس کے ساتھ ایک کمپوڈر ہمیشہ بیٹھا رہتا تھا ۔اس کمرے کا ایک دروازہ تھا اور پانی کی بھی کمی تھی یہاں پہنچ کر مجھے محسوس ہوا کہ شاید انڈر گراؤنڈ جیل ہو جنہیں افغانستان کی جنگ کے لیے استعمال کیا جاتا ہو۔ صبح و شام نقل و حرکت اور بھاری مشینری کی آوازوں سے بہت جلد میرے احساسات یقینات میں بدل گئے اور یہ واقعی ایک انڈر گراؤنڈ جیل تھی۔ جنہیں افغانستان کی جنگ کے لیے مختص کیا گیا تھا اور ہم اس کے نیچے چھٹے بلاک میں تھے۔


*دیگر طالبان رہنماؤں کے ساتھ:*

اس کے علاوہ میں بہت زیادہ ڈر گیا تھا اور بہت کم پلکوں کو حرکت دیتا تھا اور زبان تالو کے ساتھ چپک گئی لیکن میں سوچتا رہا بائیں جناب ایک بڑا کمرہ دکھائی دے رہا تھا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس میں بھی قیدی ہیں۔ میں نے یہ سوچا کہ شاید بعض طالبان بھائی بھی یہاں ہوں۔ صبح کھانے پر تمام قیدی بھائیوں کو معلوم ہوا کہ ان کا ایک اور بھائی بھی یہاں قیدی بن کر آیا ہے۔ ہم ایک دوسرے کے ساتھ بات نہیں کر سکتے تھے۔ البتہ ہم روٹی کی آڑ میں چپکے چپکے چوری سے ایک دوسرے کو دیکھ سکتے تھے ۔دو دن کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ ملا فاضل محمد، نور اللہ نوری صاحب، برہان وثیق صاحب اور غلام روحانی بھی یہاں قید ہیں لیکن پھر بھی ہم آپس میں گفتگو نہ کر سکے ۔یہ تمام طالبان رہنما تھے۔


*بتاؤ ملا عمر کہاں ہیں؟*

صبح مجھے ہتھکڑی پہنا کر ایک دوسرے کمرے میں لے جایا گیا جہاں تفتیش کا پہلا دور شروع ہوا۔ میری انگلیوں کے نشانات لیے گے، فوٹو گرافی ہوئی اور بائیو گرافی لکھی گئی۔ اس کے علاوہ کوئی سوال جواب کیے بغیر واپس اسی قید خانے میں لایا گیا جہاں رات کا کھانا پلاسٹک کے برتنوں میں پڑا ملا۔ ہلکا پھلکا کھانے کے بعد برتن فوجیوں کو واپس کر دیے جس کے بعد سونے کا ارادہ باندھا۔ ابھی آنکھیں بند ہی ہو رہی تھیں کہ فوجیوں کے شور سے جاگ گیا۔ مجھے پکڑ کر دوبارہ تفتیش والے کمرے میں لے جایا گیا جہاں پہلی دفعہ مجھ سے اسامہ بن لادن اور ملا عمر کے بارے میں سوالات پوچھے گئے کہ وہ کہاں تھے؟ کدھر چلے گئے؟ ابھی کہاں ہوں گے؟ اور کیسے ہوں گے؟ عام طور پر طالبان کے رہنماؤں کے متعلق پوچھا گیا کہ ان کا کیا بنا؟ وہ کدھر ہیں؟ اور کیسی حالت میں ہیں؟ وہ کہاں چلے گئے؟ ایک سوال وہ بار بار پوچھتے رہے کہ نائن الیون کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟ آپ کو کوئی معلومات ہیں؟ یا آپ نے اس کے متعلق کچھ سنا ہے؟


البتہ یہ وہ مقصودی سوالات تھے کہ پہلی بار وہ اس کے جوابات کے متلاشی تھے اس کے ساتھ ساتھ انہیں یہ علم بھی تھا کہ اس واقعے سے میرا کوئی رابطہ نہیں تھا اور نہ ہی مجھے اس کا علم ہے۔ا بھی تک کسی کو بھی اس کا سراغ نہ مل سکا۔ ہزاروں لوگ بے عزت کیے گئے، ہزاروں مسلمان شہید ہوئے، ہزاروں مسلمان قیدی بنائے گئے اور ابھی تک قتل و غارت گری اور قید و بند کاسلسلہ جاری ہے۔


ابھی تک اس کے کوئی شواہد عدالت کو پیش کیے گئے اور نہ ہی امریکی قوم کو اطمینان بخش جواب دیا گیا(جب شواہد اور ثبوت ہی نہیں تھے کہاں سے عدالت میں پیش کرتے اور کیسے اپنے عوام کو اس پر مطمئن کرتے؟ بلکہ آہستہ آہستہ اس صہیونی سازش کی حقیقت کھلتی چلی گئی اور پس پردہ سازش سے پردہ اٹھا) یکطرفہ طور پر بغیر کسی دلیل و شواہد کے الزامات لگائے جا رہے ہیں اور بغیر کسی قانون و قاعدہ کے ظلم و جبر کا بازار گرم کر رکھاہے ۔


♾🍃🌸 🌸🍃♾

 *جاری ہے*۔۔۔۔

Sunday, 3 December 2023

♨️ *گوانتانا موبے کا جہنم* 𒆜 بدنام زمانہ جیل گوانتانا موبے کا جہنم، سابق افغان سفیر ملّا عبدالسلام ضعیف کی کہانی۔۔۔ ◉=⫸ *دوسری قسط* 2️⃣⛓️〰️〰️

 

*بچوں کی چیخ و پکار:*
لگ بھگ 12بجے کا وقت تھا جب تین گاڑیاں آئیں اور مسلح اہلکاروں نے گھر کا محاصرہ کرکے راستے اور لوگوں کی آمد و رفت کو بند کر دیا۔ اس وقت میڈیا کے لوگوں کو بھی مجھ سے ملنے کی اجازت نہ دی گئی۔ مجھے باہر نکلنے کا حکم دیا۔ میں ایسے حال میں گھر سے نکلا جب میرے بیوی بچے چیخ و پکار کر رہے تھے۔ میں اپنے بچوں کی طرف مڑ کر نہ دیکھ سکتا تھا کیونکہ میرے پاس ان کے لیے تسلی کا ایک لفظ بھی نہ تھا۔

*’’اسلام کے محافظ‘‘*
یہاں کے حکام سے مجھے ہرگز یہ توقع نہ تھی کہ مجھے چند پیسوں کی خاطر امریکہ کو ’’تحفہ‘‘ بنا کر پیش کر دیا جائے گا (جس کا اعتراف جرنل پرویز مشرف نے اپنی کتاب ’’ان دی لائن آف دی فائر‘‘ میں بھی کیا ہے) میں اس فکر میں گھر سے نکلا کہ اتنا ظلم کیوں ہو رہا ہے؟ کہاں گئی جمہوریت اور کہاں گئے انسانی حقوق ؟ مقدس جہاد کی باتیں کرنے والوں کو آخر کیا ہوگیا؟

مجھے ایک گاڑی میں درمیان میں بٹھایا گیا۔ گاڑی کے شیشے کالے تھے جن کے آر پار کچھ نہ دیکھا جا سکتا تھا۔ ہماری گاڑی کے آگے سکیورٹی کی گاڑی تھی جبکہ تیسری گاڑی ہمارے پیچھے تھی جس میں مسلح اہلکار تھے۔ مجھے پشاور روانہ کیا گیا۔ راستے میں نسوانی آواز میں گانے سنائے جاتے رہے تاکہ مجھے تنگ کیا جائے اور ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا جائے ۔میں نے راستے میں ظہر کی نماز پڑھنا چاہی جو قضاء ہونے کے قریب تھی مگر کہا گیا کہ پشاور میں پڑھ لینا ۔ میرے بار بار مطالبے پر بھی پروا نہیں کی گئی۔ پشاور پہنچے تو ایک دفتر نما جگہ لے جایا گیا ۔یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ کون سی جگہ تھی۔ مجھے ایک کمرے میں لے جایا گیا جو خوبصورت میز اور کرسیوں سے سجا ہوا تھا۔ کمرے میں قائد اعظم کی تصویر تھی جبکہ میز پر پاکستانی جھنڈا لگا ہوا تھا۔ سامنے گھومنے والی کرسی پر پاکستانی شلوار قمیص میں ملبوس ایک میانہ قد پختون بیٹھا مسلسل کرسی میں گھومے جا رہا تھا۔ اس نے مجھے خوش آمدید کہا اور اپنا تعارف دفتر کے سربراہ کے طور پر کرایا۔ اس نے کہا ’’آپ ہمارے ایسے مہمان ہیں جن کے آنے پر ہم بہت خوش ہیں‘‘

میں ان الفاظ کے معانی جاننے سے قاصر تھا مگر لگتا تھا کہ وہ شخص ٹھیک کہتا تھا ۔شاید وہ خوش اس لیے تھا کہ اس کو میرے فروخت کرنے کے عوض بہت اچھا معاوضہ ملنے والا تھا۔ انسانوں کے سوداگروں (درحقیقت ضمیر فروشوں) کے لیے ڈالروں کے بدلے کسی مسلمان کا سودا جائز اور عین ’’جہاد‘‘ ہے۔

یہاں میں نے نماز پڑھی۔ دفتر کے سربراہ نے چائے پلائی اور کھانا کھلایا۔ پھر مجھے ایسے کمرے میں لے جایا گیا جو قیدیوں کے لیے مخصوص تھا۔ نسبتاً اچھا کمرہ تھا جس میں گیس، بجلی وغیرہ کی سہولت تھی جو سردی کو روکتی تھی۔ اٹیچ باتھ روم تھا جہاں پانی وافر مقدار میں موجود تھا۔ اچھی خوراک دی گئی۔ قرآن پاک کا نسخہ اور قلم کتابچہ بھی دیا گیا۔ ایک پہرے دار کو مجھ پر نظر رکھنے پر مامور کر دیا گیا۔ جس سے جو مانگتا دے دیتا تھا۔ تفتیش وغیرہ کا سلسلہ نہ تھا البتہ ایک شخص بار بار آتا جو عہدیدار معلوم ہوتا تھا، پشتو نہیں جانتا تھا اور مجھے اردو نہیں آتی تھی اس نے مجھ سے انگریزی میں پوچھا’’What will happend (کیا ہونے والا ہے؟) میں نے جواب دیا’’ اللہ جانتا ہے۔ میں نہیں جانتا‘‘

اس دوران حکام آتے ، اچھے طریقے سے سلام دعا کرتے اور مجھے احترام دیتے۔ باتیں نہیں کرتے تھے مگر صاف دکھائی دیتا تھا کہ جب وہ مجھے دیکھتے ہیں تو ان کی آنکھوں میں آنسو امڈ آتے اور واپس پلٹ جاتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک شخص کمرے میں آیا۔ بہت احترام دیا پھر اچانک بلک بلک کر رونے لگا۔ اتنا رویا کہ بے ہوش ہوگیا۔ اس کو اٹھا کر باہر لے جایا گیا جس کے بعد کوئی کمرے میں نہیں آیا۔ چار گھنٹے بعد مجھے (پروگرام کے مطابق) امریکیوں کے حوالے کر دیا گیا۔ اس واقعہ سے پہلے میں نے دو راتیں اسی کمرے میں گزاریں۔ تیسری رات 11بجے کے قریب میں نے سونے کا ارادہ کیا کہ اچانک دروازہ کھلا اور شلوار قمیص میں ملبوس چھوٹی ڈاڑھی والا ایک شخص اندر داخل ہوا اور خیریت دریافت کرنے کے بعد پوچھا ’’کیا ہونے والا ہے؟‘‘ میں نے لا علمی ظاہر کی پھر اس نے کہا ’’ہم آپ کو دوسری جگہ منتقل کر رہے ہیں‘‘ ’’خدا حافظ‘‘

میں نے یہ نہیں پوچھا کہ مجھے کہاں لے جایا جا رہا ہے کیونکہ مجھے سچ کی امید نہیں تھی۔ مجھے واش روم استعمال کرنے کے لیے پانچ منٹ دیے گئے۔ ٹھیک دس منٹ بعد کمرے سے نکال کر پہلی بار ہتھکڑیاں لگائی تھیں اور آنکھوں پر کالی پٹی باندھی گئی۔ جیبوں کی تلاشی لی گئی اور ڈیجیٹل ڈائریکٹری، پاکٹ سائز قرآن مجید کا نسخہ اور کچھ رقم لے کر مجھے دھکے دے کر گاڑی میں بٹھا دیا گیا۔ میرے ساتھ گاڑی میں بیٹھے افراد خاموش تھے ۔کوئی کچھ نہ بول رہا تھا۔ گاڑی نے حرکت کی اور لگ بھگ ایک گھنٹے بعد میں نے ہیلی کاپٹر کی آواز سنی۔ مجھے (آثار و قرائن سے) یقین ہونے لگا کہ ہیلی کاپٹر امریکی ہے۔ پھر رفتہ رفتہ گاڑی ہیلی کاپٹر کے قریب ہوتی گئی اور اس کی آواز کانوں کو پھاڑنے لگی۔ اس دوران مجھے ضرب پڑی اور میری کلائی پر بندھی قیمتی گھڑی اس ضرب کے نتیجے میں گر گئی یا(اس بہانے) مجھ سے لے لی گئی۔ ہیلی کاپٹر کے قریب پہنچ کر مجھے دو افراد کی مدد سے گاڑی سے اتارا گیا اور ہیلی کاپٹر سے چند قدم کے فاصلے پر کھڑا کر دیا گیا۔ چند لمحوں بعد میں نے ’’خدا حافظ‘‘ کے الفاظ سنے ۔یہاں مجھے پوری طرح یقین ہوگیا کہ میں امریکیوں کے حوالے کر دیا گیا ہوں۔

♾🍃🌸  🌸🍃♾
*جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔*

♨️ *گوانتانا موبے کا جہنم* 𒆜

 ♨️ *گوانتانا موبے کا جہنم* 𒆜

♨️ *گوانتانا موبے کا جہنم* 𒆜
بدنام زمانہ جیل گوانتانا موبے کا جہنم، سابق افغان سفیر ملّا عبدالسلام ضعیف کی کہانی۔۔۔

◉=⫸ *پہلی قسط* 1️⃣⛓️〰️〰️

عراق اور افغانستان پر چڑھائی کے بعد پکڑے گئے قیدیوں کو قانونی سہولت سے محروم رکھنے کے لیے کیوبا کی سرزمین، صوبہ گوانتانمو کی خلیج گوانتانمو میں، امریکی بحری اڈے پر واقع تاریخ کی بدنام ترین جیل میں لاوارث قیدیوں پر بدترین تشدد کیا گیا۔ جہاں موجود قیدی نہ امریکی قانون کے دائرے میں آتے ہیں اور نہ ہی جنگی قیدیوں کا عالمی معاہدہ جنیوا کنونشن ان پر لاگو ہوتا ہے۔

۔✿❀࿐≼ ❍••═┅┄

میں نے پاکستان میں اپنی گرفتاری سے تقریباً چھ دن قبل ایسا خواب دیکھا جو بڑا دردناک اور وحشت ناک تھا جس نے مجھے چونکا دیا۔میں نے خواب میں دیکھا کہ میرا بڑا بھائی جس کے ہاتھ میں قصابوں والی بڑی چھری تھی، لہراتا ہوا میرے قریب آیا، اس کے چہرے پر غصے کے تاثرات تھے اور مسلسل مجھے گھور رہا تھا، مزید قریب آکر اس نے نرم لہجے میں کہا’’بھائی اس چھری سے میں آپ کو ذبح کرنا چاہتا ہوں‘‘ یہ کہہ کر اس نے آستین چڑھائی۔ میں حیران تھا اور وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ میرا اپنا بھائی اس قسم کا ناروا ارادہ باندھ سکتا ہے۔

میں نے اپنے بھائی کے ساتھ کبھی برا سلوک بھی نہ کیا تھا نہ ہی اس کے حق میں کوئی کوتاہی کی تھی۔ میں نے سوچا آخر اس کو اس خطرناک ارادے پر کس نے ابھارا ہے۔ اور یہ کہ اگر بڑے بھائی کی خوشی اسی میں ہے تو مجھے ان کی خواہش پوری کرنا چاہئے اور مزاحمت نہیں کرنا چاہئے۔ میں نے نرمی سے پوچھا:’’بھائی! میں نے کبھی آپ کے ساتھ برا سلوک نہیں کیا۔ پھر آپ نے اتنا خطرناک ارادہ کر لیا آپ کس بات کا انتقام لینا چاہتے ہیں اور کیوں غیر شرعی کام کرنے پر تلے ہوئے ہیں؟‘‘

بھائی نے جواب نہیں دیا اور آگے سے اس پر اصرار کر رہا تھا کہ مجھے آپ کو ذبح کرنا ہے۔ میں نے دل میں کہا کہ پہلے تو میں اسے منا لوں گا کہ یہ بہت بڑا اقدام ہے لیکن اگر وہ نہ مانا تو پھر بڑا سمجھ کر میں خود قربانی دے دوں گا۔ چنانچہ ہوا یوں کہ میں نے اسے منانے کی کوشش کی لیکن وہ اپنی بات پر ڈٹا ہوا تھا آخر میں نے کہا کہ اپنا ارادہ شوق سے پورا کر لے اور اس امید کے ساتھ زمین پر لیٹ گیا کہ شاید اس کا دل پسیج جائے اور تھوڑا رحم آجائے مگر میری امیدوں پر پانی پھر گیا اور میرے اپنے بھائی نے انتہائی بے رحمی سے چھری میرے گلے پر پھیر کر مجھے ذبح کر ڈالا۔میں نے یہ خواب کسی کو سنایا اور نہ خود تعبیر معلوم کرنے کی کوشش کی اس بھیانک خواب کو دیکھنے کے ٹھیک چار پانچ دن بعد میں نے پاکستانی حکام کو اپنے گھر کا چاروں طرف سے محاصرہ کرتے ہوئے پایا۔

*گرفتاری:*
یہ 2جنوری2002ء کی صبح تھی، پاکستان میں سال نو کی تقریبات اختتام پذیر ہو چکی تھیں۔ میں اپنے اہل وعیال کے ساتھ معمول کی زندگی گزار رہا تھا اور ہر وقت افغانستان میں رہنے والے گمشدہ بھائیوں اور شہیدوں کی فکر میں مبتلا رہتا تھا۔ جو سنگدل ظالم دوست کے ہتھے چڑھ گئے تھے۔ میں ان کی قسمت پر کڑھتا تھا مگر اپنی تقدیر سے لاعلم تھا۔ تقریباً 8بجے کا وقت تھا گھر کے محافظوں نے اطلاع دی کہ چند پاکستانی سرکاری اہلکار آپ سے ملنے آئے ہیں۔ مہمانوں کو ایک چھوٹے سے کمرے میں بٹھایا۔ یہ تین افراد تھے ان میں ایک پختون(جو اپنا نام گلزار بتاتا تھا) اور باقی دو اردو بولنے والے تھے۔ میں نے افغان روایات کے مطابق تینوں مہمانوں کا خیر مقدم کیا اور چائے بسکٹ سے تواضع کیا۔ میں متجسس تھا کہ وہ کیا پیغام لے کر آئے ہیں؟

*اب تم محترم نہیں ہو:*
اردو بولنے والے ایک سیاہ رنگ کے موٹے کلین شیو شخص نے جس کے چہرے سے نفرت اور تعصب ٹپکتی تھی جس کا پیٹ پھولا ہوا اور بڑے موٹے ہونٹ تھے اور ایسا لگتا تھا کہ جیسے دوزخ کا ایلچی ہو، نے بڑے غیر موؤبانہ انداز میں بات شروع کی اور پہلا جملہ ادا کیا:Your Excellenecy you are no more Excellency(بڑے محترم اب تم محترم نہیں ہو) یہ وہ الفاظ تھے جو سخت دشمنی اور تعصب کی بنیاد پر استعمال ہوتے ہیں اور کم عقل لوگوں کے منہ سے اکثر و بیشتر استعمال ہوتے ہیں اور یہاں ان الفاظ کی کوئی ضرورت نہ تھی سوائے تعصب اور دشمنی کے اظہار کے۔

*پھر وہ شخص بولا:*
’’آپ جانتے ہیں کہ امریکا بہت بڑی طاقت ہے اور کوئی اس کا مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں کر سکتا نہ ہی کوئی اس کا حکم ماننے سے انکار کی جرات کر سکتا ہے۔ امریکا کو آپ کی ضرورت ہے تاکہ آپ سے پوچھ گچھ کی جا سکے۔ ہم آپ کو امریکہ کے حوالے کرنے آئے ہیں تاکہ اس کا مقصد بھی پورا ہو اور پاکستان کو بھی برے خطرے سے بچایا جا سکے۔‘‘ میں نے بحث شروع کر دی اور کہا کہ چلو مان لیا آپ کے بقول امریکا ایک سپر طاقت ہے لیکن دنیا کے کچھ قوانین اور اصول بھی تو ہیں جن کے تحت لوگ زندگی گزارتے ہیں۔ میں حیران ہوں کہ کن مروجہ اسلامی یا غیر اسلامی قوانین کے تحت مجھ سے یہ بدسلوکی کی جا رہی ہے؟(حالانکہ کسی بھی ملک کے سفیر کا تحفظ اور عزت بین الاقوامی مسلمہ اصول ہے) آپ کس کے ہاتھوں مجبور ہیں۔ آپ کا اخلاقی فرض ہے کہ مجھے میرے سوالوں کا جواب دیں اور مجھے اتنی مہلت دیں کہ میں آپ کا ملک پاکستان چھوڑ دوں ۔

میری باتوں پر اس بے رحم بد بخت’’مزدور‘‘ نے انتہائی بے شرمی سے اور غراتے ہوئے کہا:’’آج ہمیں اسلام یا قانون نہیں پاکستان کے مفادات عزیز ہیں۔‘‘ (درحقیقت اپنے شخصی اقتدار کا تحفظ مقصود تھا) میں نے یہ بات سنی تو سمجھ گیا کہ اب کوئی دلیل اور عذر کام نہ آسکے گا۔ خاموشی اختیار کرنے سے قبل صرف اتنا کہا کہ جو آپ کی مرضی ہے کریں ہم بے بس اور مجبور لوگ ہیں ۔سوائے خدا وند قدوس کے کوئی دوسرا آسرا اور امید نہیں۔ وہی ہمارا حامی و ناصر ہے۔ یہ سن کر اس شخص نے کہا کہ آپ 12بجے تک گھر میں رہیں گے۔ اس کے بعد آپ کو پشاور لے جایا جائے گا۔ میری رہائش گاہ کو چاروں طرف سے محاصرے میں لیا گیا تھا اور باہر جانے کا کوئی راستہ تھا نہ کوئی امید۔ ٹیلی فون کے ذریعے پاکستان کے دفتر خارجہ سے رابطہ مگر سوائے خاموشی کے کچھ ہاتھ نہ آیا اور ذمہ داروں نے جواب دینے سے اعراض کیا۔

*گھر سے بے دخلی:*
پھر وہ لمحہ بھی آیا جب مزید سرکاری حکام آئے اور شاہی حکم صادر کیا کہ آپ کو پشاور منتقل کیا جا رہا ہے جہاں آپ ہمارے مہمان رہیں گے اور امریکی آپ سے صرف پوچھ گچھ کریں گے۔ ہو سکتا ہے دس دن بعد آپ گھر واپس آجائیں۔ یہی اطمینان میرے اہل و عیال کو بھی دلایا گیا اور مجھے یقین دلایا گیا کہ جب تک میں ان کا ’’مہمان‘‘ ہوں میرے خاندان کی رہائش اور خوراک وغیرہ کا بندوبست کیا جاتا رہے گا۔ میرا یہ سب کچھ ادھر ہی رہ گیا۔ میرے پاس دس مہینے کا ویزا تھا اور حکومت پاکستان کا یہ رسمی اجازت نامہ بھی کہ میں اس وقت تک پاکستان میں قیام کر سکتا ہوں۔ جب تک افغانستان کے حالات ٹھیک نہیں ہو جاتے جبکہ اقوام متحدہ کا وہ لیٹر بھی تھا جس میں پاکستانی حکام کو کہا گیا تھا کہ یہ (ملا عبدالسلام ضعیف) اہم شخصیت ہیں ان کا احترام ہونا چاہئے۔

🕳️ گوانتانا موبے ایک ایسا حراستی مرکز جہاں بدترین حالات اور تشدد کے نت نئے طریقوں کے نتیجوں میں قیدی نفسیاتی مریض بن جاتے یا جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے 〽️‼️