👈 *''ایک خوفناک مچھلی'' __؟؟*
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تین سو سواروں کے ساتھ بھیجا اور ہمارا امیر ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کو بنایا، تاکہ ہم قریش کے قافلۂ تجارت کی گھات میں رہیں، کھجور کا ایک تھیلا زادِ راہ کے طور پر ساتھ لے لیا، حضرت ابو عبید رضی اللہ تعالی عنہ ایک ایک کھجور ہمیں دیتے تھے، (راوی) کہتے ہیں: میں نے عرض کیا کہ ایک کھجور سے کیا ہوتا ہوگا؟ حضرت جابرؓ نے فرمایا کہ ہم اس کو یوں چوستے تھے جیسے بچہ چوستا ہے، پھر اس پر پانی پی لیتے تھے، پس وہ کھجور پورے دن کے لئے کافی ہوتی تھی، ( جب کھجوریں ختم ہو گئیں تو ) ہم اپنی لاٹھیوں سے پتے جھاڑ کر انہیں پانی میں بھگو کے کھانے لگے، آخر ہم سمندر کے کنارے
پہنچ گئے، اتفاق سے سمندر کے ساحل سے ہمیں ایک مچھلی ملی جو بڑے ریت کے ٹیلے کی مانند تھی، ہم اس کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ ایک حیوان ہے جس کو عنبر کہتے تھے، حضرت ابو عبیدہ نے فرمایا کہ یہ مردار ہے، پھر فرمایا کہ نہیں، ہم تو رسولؐ کے قاصد اور پیغام رساں ہیں اور اللہ کے راستے میں ہیں اور پھر تم بے تابی کی حالت کو بھی پہنچ چکے ہو، اس لیے کھالو، (راوی کا بیان ہے کہ ہم ایک ماہ تک ( کھاتے) رہے، ہم تین سو افراد تھے، (ہم نے خوب کھایا کہ ) ہم موٹے ہو گئے، (راوی) کہتے ہیں کہ ہم اس مچھلی کی آنکھ کے گڑھے سے تیل کے مٹکے نکالتے تھے اور بیل کے برابر گوشت کے ٹکڑے کرتے تھے، حضرت ابو عبیدہ نے تیرہ آدمی لے کر اس مچھلی کی آنکھ کے گڑھے میں بٹھائے (تو وہ بیٹھ گئے ) اور اس مچھلی کی ایک پسلی کو کھڑا کیا اور سب سے بڑے کجاوے والے اونٹ کو اس کے نیچے سے گزارا (تو وہ گزر گیا)، پھر ہم نے اس کے گوشت کے پارچے کر کے خشک کیا اور زادِ راہ کے طور پر اپنے ساتھ رکھ لیا، پھر جب ہم مدینہ پہنچ کر رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو سارا واقعہ ذکر کیا تو آپؐ نے فرمایا کہ وہ رزق تھا جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے ظاہر کیا تھا، اگر تمہارے پاس اس میں سے کچھ بچا ہو تو مجھے بھی کھلاؤ چنانچہ ایک صاحب نے لا کر آپؐ کی خدمت میں پیش کیا اور آپ نے تناول فرمایا "
اخرجه البخاری (۴۳۶۰) و مسلم (۱۹۳۵)]
*نوٹ* اس پیغام کو دوسروں تک پہنچائیے تاکہ اللہ کسی کی زندگی کو آپ کے ذریعے بدل دے
No comments:
Post a Comment