👈 *جذبات_احساسات کی "ایکسپائری ڈیٹ" !!*
ایک بوڑھے کسان نے اپنی بیمار بیوی کو گھوڑا گاڑی کی عقبی نشست پر لٹا دیا، خود وہ اگلی نشست پر سوار ہوا، گاڑی کو کھینچنے کے لیے اس کے آگے مریل سا گھوڑا جُتا ہوا تھا۔ اور یوں وہ اسے علاج کے لیے دور دراز شہر لے گیا۔
مسافت طویل تھی تو رستے میں اس کسان نے بولنا شروع کر دیا، وہ روانی سے بولتا جارہا تھا اور اپنا آپ کھولتا جارہا تھا یوں جیسے وہ خود سے بات کر رہا ہو، لیکن ساتھ ہی وہ اپنی بیمار بیوی کو تسلی بھی دے رہا ہو، جو چالیس سال تک اس کے ساتھ دکھوں، مصیبتوں، تکلیفوں، دردوں کو سہتے ہوئے مشقت میں اس کی بھرپور مدد کرتی رہی تھی۔ باہر کھیتوں میں اور گھر کے کام کاج کا بوجھ اکیلے اٹھانے کی مشقت..
کسان جیسے جیسے بولتا جارہا تھا اسے محسوس ہو رہا تھا کہ وہ گذشتہ برسوں میں اس کے ساتھ ظالمانہ اور غیر منصفانہ سلوک کرتا رہا ہے، اور اسے اب اس کے ساتھ نرمی اور محبت سے پیش آنا چاہیے، اور اسے میٹھے بول سے دلاسہ دینا چاہیے
اس نے اپنی بیوی کو بتانا شروع کر دیا کہ نہ صرف اس نے اس کے ساتھ ظلم کیا ہے، بلکہ زندگی نے بھی اس کے ساتھ ظلم کیا ہے، کیونکہ اسے اپنی روزمرہ کی زندگی میں اس سے کوئی مہربان لفظ کہنے ، ہمدردی کے دو میٹھے بول پیش کرنے ، یا اسے پانی جیسی پاکیزہ اور لطیف مسکراہٹ دینے کا وقت نہیں ملا، کٹھن حیات میں آسانی کا ایک لمحہ بھی اسے نہ دے سکا!
وہ شخص تمام راستے پچھتاوے کا احساس لیے یاسیت بھرے لہجے میں بغیر رکے بولتا رہا. ایک ندی کا پانی جس طرح پتھروں پر مسلسل گرتا رہتا ہے تو ان پر ان مٹ گہری لکیریں ڈال دیتا ہے، اسی طرح غم بھی انسانی روح پر کنندہ ہوچکے تھے .. وہ ان غموں کا مداوا کرنا چاہتا تھا، اور اپنے سابقہ روپے کی تلافی کے لیے محبت، نرمی اور ازدواجی زندگی میں گرمجوشی پیدا کرنے والے ان لفظوں کا سہارا لینا چاہتا تھا جو اس نے گذشتہ چالیس برسوں میں استعمال نہ کیے تھے. اس نے عقبی نشست پر لیٹی بیمار بیوی سے وعدے کرنے شروع کیے کہ باقی ماندہ زندگی وہ اس کے لیے وہ سب کچھ حاصل کرے گا جس کی اسے کبھی خواہش رہی تھی اور آئندہ بھی وہ خواہش کرے گی...
جب وہ شہر پہنچا تو آگے والی نشست سے اُٹھ کر عقبی نشست پر سے زندگی میں پہلی بار اسے اپنی بانہوں میں بھر کر اٹھایا اور ڈاکٹر کے پاس لے گیا، مگر ڈاکٹر نے دیکھتے ہی اسے کہا کہ یہ تو کب کی مر چکی ہے، وہ اب ایک سرد لاش کے سوا کچھ نہ تھی۔ طویل رستے میں زندگی پہلی بار اس کی میٹھی، شفقت بھری گفتگو سننے سے پہلے ہی وہ مر چکی تھی!
مصنف: روسی ادیب انتون چیخوف
عربی زبان سے اردو قالب: توقیر بُھملہ
اور یہاں پر چیخوف کی لکھی ہوئی درد کی کہانی ختم ہوتے ہوئے ہمیں اس بوڑھے کسان کی طرح تنہا چھوڑ دیتی ہے جو اپنی بیوی کے آخری لمحات میں شاید اپنے آپ سے ہمدردی جتا رہا تھا، کیوں کہ جسے وہ سب کہنا چاہتا تھا اس کے لیے تو بہت دیر ہو چکی تھی۔
دوستو یاد رکھو الفاظ، احساسات اور جذبات کی بھی "ایکسپائری ڈیٹ" ہوتی ہے ایک وقت آتا ہے کہ الفاظ کارآمد نہیں رہتے اور وہ عدم معنی والی محض کھوکھلی آواز بن کر رہ جاتی ہے
ایک مقررہ وقت کے بعد ہم جو کہنا چاہتے ہیں وہ الفاظ اپنا مطلب کھوچکے ہوتے ہیں!
ہم ایک دوسرے کی قدر و قیمت اس وقت تک نہیں جانتے جب تک وہ چیز ہم سے کھو نہ جائے، اور ایک دوسرے کی قدر کرنے سے تاعمر ہچکچاتے رہتے ہیں اور یوں تمام وقت ان کہی میں گزار دیتے ہیں، سچ کہتے ہیں کہ آخر وقت پر گلاب دینا اس سے بہتر ہے کہ زندگی میں اپنا سب کچھ ایک دوسرے کو دان کر دیں اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے۔
صحیح وقت پر شیریں سخن کرنا اس سے بہتر ہے کہ احساس و تعلقات ختم ہوجانے کے بعد طویل نظم لکھی جائے۔
دیر سے آنے والی چیزوں کا کوئی فائدہ نہیں، جیسے کہ مردہ کی پیشانی پر بوسہ لینا۔
"خوبصورت چیزوں کو ملتوی نہ کریں ... وہ دوبارہ نہیں ہوسکتی ہیں۔"
*نوٹ* اس پیغام کو دوسروں تک پہنچائیے تاکہ اللہ کسی کی زندگی کو آپ کے ذریعے بدل دے
𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼
❤️ ✍🏻ㅤ 📩 📤
ˡᶦᵏᵉ ᶜᵒᵐᵐᵉⁿᵗ ˢᵃᵛᵉ ˢʰᵃʳᵉ
No comments:
Post a Comment