Monday, 22 January 2024

👈 *اسلام میں عشقِ مجازی کا تصور __!!*


     👈 *اسلام میں عشقِ مجازی کا تصور __!!* 

نبی کریم ﷺ نے پوچھا : ” تم مالدار بھی ہو ؟“

جی الحمدللہ !“

نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ”پھر تو تم شیطان کے بھائی ہو اگر تم عیسائیوں میں ہوتے تو ان کے راہبوں میں شمار ہوتے لیکن ہماری سنت تو نکاح ہے تم میں سے بدترین لوگ کنوارے ہیں اور گھٹیا ترین موت مرنے والے کنوارے ہیں کیا تم شیطان سے لڑتے ہو ؟ شیطان کے پاس نیک آدمیوں کے لیے عورتوں سے زیادہ کارگر ہتھیار کوئی نہیں سوائے اس کے کہ وہ شادی شدہ ہوں یہی لوگ پاکیزہ اور گندگی سے مبرا ہوتے ہیں عکاف یہ عورتیں تو حضرت ایوب، داؤد ، یوسف  اور کرسف کی ساتھی رہی ہیں“

بشر بن عطیہ نے پوچھا :

”یا رسول اللہ ﷺ ! کرسف کون تھا ؟“

نبی کریم ﷺ نے فرمایا 



”یہ ایک آدمی تھا جو کسی ساحل پر تین سو سال تک اللہ کی عبادت میں مصروف رہا دن کو روزہ رکھتا تھا اور رات کو قیام کرتا تھا لیکن پھر ایک عورت کے عشق کے چکر میں پھنس کر اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کر بیٹھا اور اللہ کی عبادت بھی چھوڑ دی بعد میں اللہ نے اس کی دستگیری فرمائی اور اس کی توبہ قبول فرمالی ارے عکاف ! نکاح کرلو ورنہ تم تذبذب کا شکار رہو گے۔“

 انہوں نے عرض کیا:

” یا رسول اللہ ﷺ ! آپ خود ہی میرا نکاح کر دیجئے“

نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”میں نے کریمہ بنت کلثوم حمیری سے تمہارا نکاح کردیا۔“

(مسند احمد جلد نہم ۔ حدیث  1551)

اس حدیث سے معلوم ہوا ۔

(1) نکاح کی قدرت رکھنے کے باوجود جو نکاح نہ کرے وہ شیطان کے راستے پر ہے۔

(2) نیک شخص اگر کنوارہ ہے تو اس کی نیکی کو عورت کا عشق کبھی بھی گناہ و کفر تک لے جاسکتا ہے چاہے وہ تین سو سال کا شب بیدار عابد و تین سو سال کا روزہ دار ہی کیوں  نہ ہو۔

(3) عورت کا عشق کنواروں کے لیے فتنہ ہے۔

(4) عورت کے عشق کے اس فتنے سے بچنے کا واحد حل نکاح ہے۔

*نوٹ* اس پیغام کو دوسروں تک پہنچائیے تاکہ اللہ کسی کی زندگی کو آپ کے ذریعے بدل دے

𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼

  ❤️      ✍🏻ㅤ   📩      📤 

  ˡᶦᵏᵉ   ᶜᵒᵐᵐᵉⁿᵗ   ˢᵃᵛᵉ     ˢʰᵃʳᵉ


👈 *والدین کی اطاعت کا صلہ __!!*


             👈 *والدین کی اطاعت کا صلہ *


مفتی محمد تقی عثمانی صاحب ایک سال میں کئی کئی بار حرمین شریفین کیسے جاتے ہیں؟

شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ نےاپنا ایک واقعہ سنایا کہ الله تعالیٰ

 نے سن 1964ء میں والدین کے ساتھ حج بیت الله کی سعادت نصیب فرمائی تھی اور اس سے ایک سال قبل سن 1963ء میں بڑے بھائی جناب ولی رازی صاحب کے ہمراہ عمرہ کی سعادت نصیب ہوچکی تھی، لیکن اس کے بعد دس سال تک کوئی ایسی صورت نہ بن پائی کہ حاضری کی نوبت آتی، ہر سال جب بھی حج کا موسم آتا تو طبیعت مچلتی رہتی تھی لیکن وسائل نہ ہونے کی وجہ سے یہ شوق دل میں ہی رہتا اور پھر ہر سال اس شوق میں اضافہ ہی ہوتا جاتا تھا، دس سال اسی طرح گزر گئے کہ کوئی صورت نہ بن پائی، الله تعالیٰ سے دعا بھی کرتے رہتے کہ کوئی سبیل نکال دے۔

1974ء کے سال جب حج کا موسم آیا تو ایک صاحب نے حجِ بدل کرنے کی پیشکش کر دی، شوق تو پہلے سے تھا اب الله تعالیٰ نے جانے کی صورت بھی پیدا فرما دی تھی۔ دس سال بعد حاضری کا شرف مل رہا تھا لیکن دوسری طرف ان دنوں حضرت والد ماجد (مفتی شفیع عثمانیؒ صاحب) صاحبِ فراش تھے اور میرا اکثر وقت انہی کے پاس گزرتا تھا۔ بلکہ میں نے اپنا دفتر بھی حضرت والد صاحبؒ کے قریب ہی منتقل کر لیا تھا تاکہ زیادہ سے زیادہ دیکھ بھال کی جاسکے۔ 


اب ایک طرف حضرت والد صاحبؒ کی علالت تھی اور دوسری طرف جذبۂ شوق کی تکمیل اور دلی چاہت کے پورا ہونے کی پیشکش تھی، لیکن طبیعت میں بوجھل پن تھا، مکمل رضامندی کسی طرف بھی نہیں تھی، عجیب گوناگوں کیفیت میں مبتلا ہوگیا تھا، حضرت والد صاحب رح کے سامنے اس پیشکش کا 

تذکرہ کیا تو فرمانے لگے:



"چلے جاؤ..! الله تعالیٰ موقع دے رہے ہیں تو حاضری دے آؤ" ۔ والد صاحبؒ کی اجازت ہونے کے بعد بھی انکو اس حال میں چھوڑ کر جانے کا مَن نہیں کر رہا تھا اسی کشمکش میں، میں نے ان پیشکش کرنے والے صاحب کو انکار کردیا 

چند دن بعد حضرت والد صاحبؒ نے پوچھا :

"ہاں بھئی! تمہاری اس پیشکش کا کیا بنا؟ گئے نہیں حج کرنے.؟

تو میں نے عرض کیا کہ :

" انہیں میں نے انکار کردیا ہے".

والد صاحبؒ نے دریافت فرمایا کہ :

کیوں...؟؟

تو اس وقت میری زبان سے یہ جملہ نکلا :

"حضرت ہمارا حج و عمرہ تو بس یہیں ہے".

یہ سن کر حضرت والد صاحبؒ بہت خوش ہوئے، بہت دعاؤں سے نوازا اور فرمایا :

"تم وہاں اتنا جاؤ گے، الله تمہیں اتنی توفیق بخشے گا کہ

لوگ رشک کریں گے ۔"


بس حضرت والد صاحبؒ کی دعاؤں کی برکت ہے کہ اس کے ایک سال بعد یعنی 1975ء سے ہی اللہ پاک اپنے فضل سے ایسی ترتیب بنا دی کہ ہر سال کم از کم اس ناکارہ کو تین بار تو حاضری کی توفیق فرماہی دیتے ہیں، جس کو وہاں حاضری ملنی ہی نہیں چاہیے تھی اور کبھی تو سال بھر میں چھ چھ بار بھی حاضری کا شرف مل جاتا ہے یہ محض الله تعالیٰ کا فضل و احسان ہے۔


اس وقت میرے سامنے دو چیزیں تھیں، ایک تو شوق کی تکمیل کا موقع مل رہا تھا اور بہت بڑی سعادت تھی کہ حرمین شریفین حاضری کا موقع دس سال بعد مل رہا تھا لیکن یہ نفلی حج تھا اور دوسری طرف حضرت والد صاحب رح کی خدمت تھی جو کہ فرائض کے بعد سب سے مقدم ہے۔ تو میں نے اس کو چنا جس کا وقت تقاضا کررہا تھا۔ اپنے شوق کو پیچھے کردیا، وقت کا تقاضا تھا کہ والد صاحب بیمار ہیں انکی خدمت کی جائے، جبکہ دوسری طرف نفلی حج ہے۔ اس لیے جس کی اہمیت تھی اس کو مقدم کیا جس کا صلہ الله تعالیٰ نے پھر بے بہا دیا۔ 

میرے شیخ مولانا مسیح الله خان صاحبؒ فرماتے تھے "دین، شوق پورا کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ دین نام ہے اتباع کا".  (منقول)

*نوٹ* اس پیغام کو دوسروں تک پہنچائیے تاکہ اللہ کسی کی زندگی کو آپ کے ذریعے بدل دے

𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼

  ❤️      ✍🏻ㅤ   📩      📤 

  ˡᶦᵏᵉ   ᶜᵒᵐᵐᵉⁿᵗ   ˢᵃᵛᵉ     ˢʰᵃʳᵉ

دن میں پانچ وقت مولوی آگے ہی ہوتا ہے

 دن میں پانچ وقت مولوی آگے ہی ہوتا ہے 



                                 

 


Sunday, 21 January 2024

👈 *''ایک خوفناک مچھلی'' __؟؟*


          👈 *''ایک خوفناک مچھلی'' __؟؟* 


حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تین سو سواروں کے ساتھ بھیجا اور ہمارا امیر ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کو بنایا، تاکہ ہم قریش کے قافلۂ تجارت کی گھات میں رہیں، کھجور کا ایک تھیلا زادِ راہ کے طور پر ساتھ لے لیا، حضرت ابو عبید رضی اللہ تعالی عنہ ایک ایک کھجور ہمیں دیتے تھے، (راوی) کہتے ہیں: میں نے عرض کیا کہ ایک کھجور سے کیا ہوتا ہوگا؟ حضرت جابرؓ نے فرمایا کہ ہم اس کو یوں چوستے تھے جیسے بچہ چوستا ہے، پھر اس پر پانی پی لیتے تھے، پس وہ کھجور پورے دن کے لئے کافی ہوتی تھی، ( جب کھجوریں ختم ہو گئیں تو ) ہم اپنی لاٹھیوں سے پتے جھاڑ کر انہیں پانی میں بھگو کے کھانے لگے، آخر ہم سمندر کے کنارے 


پہنچ گئے، اتفاق سے سمندر کے ساحل سے ہمیں ایک مچھلی ملی جو بڑے ریت کے ٹیلے کی مانند تھی، ہم اس کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ ایک حیوان ہے جس کو عنبر کہتے تھے، حضرت ابو عبیدہ نے فرمایا کہ یہ مردار ہے، پھر فرمایا کہ نہیں، ہم تو رسولؐ کے قاصد اور پیغام رساں ہیں اور اللہ کے راستے میں ہیں اور پھر تم بے تابی کی حالت کو بھی پہنچ چکے ہو، اس لیے کھالو، (راوی کا بیان ہے کہ ہم ایک ماہ تک ( کھاتے) رہے، ہم تین سو افراد تھے، (ہم نے خوب کھایا کہ ) ہم موٹے ہو گئے، (راوی) کہتے ہیں کہ ہم اس مچھلی کی آنکھ کے گڑھے سے تیل کے مٹکے نکالتے تھے اور بیل کے برابر گوشت کے ٹکڑے کرتے تھے، حضرت ابو عبیدہ نے تیرہ آدمی لے کر اس مچھلی کی آنکھ کے گڑھے میں بٹھائے (تو وہ بیٹھ گئے ) اور اس مچھلی کی ایک پسلی کو کھڑا کیا اور سب سے بڑے کجاوے والے اونٹ کو اس کے نیچے سے گزارا (تو وہ گزر گیا)، پھر ہم نے اس کے گوشت کے پارچے کر کے خشک کیا اور زادِ راہ کے طور پر اپنے ساتھ رکھ لیا، پھر جب ہم مدینہ پہنچ کر رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو سارا واقعہ ذکر کیا تو آپؐ نے فرمایا کہ وہ رزق تھا جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے ظاہر کیا تھا، اگر تمہارے پاس اس میں سے کچھ بچا ہو تو مجھے بھی کھلاؤ چنانچہ ایک صاحب نے لا کر آپؐ کی خدمت میں پیش کیا اور آپ نے تناول فرمایا "

اخرجه البخاری (۴۳۶۰) و مسلم (۱۹۳۵)]

*نوٹ* اس پیغام کو دوسروں تک پہنچائیے تاکہ اللہ کسی کی زندگی کو آپ کے ذریعے بدل دے





👈 *اولاد کے عروج کا راز سچی حکایت __!!


👈 *اولاد کے عروج کا راز سچی حکایت __!!* 


ﺍﻧﮑﺎ ﻧﺎﻡ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﺗﮭﺎ۔ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﻍ ﻣﯿﮟ ﻋﺮﺻﮧ ﺳﮯ ﺑﻄﻮﺭ ﭘﮩﺮﮮ ﺩﺍﺭ ﮐﺎﻡ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ۔ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺍﺱ ﺑﺎﻍ ﮐﺎ ﻣﺎﻟﮏ ﺍﭘﻨﮯ ﭼﻨﺪ ﻣﮩﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﺎﻍ ﻣﯿﮟ ﺁﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ : ﻣﺒﺎﺭﮎ ! ﻣﮩﻤﺎﻥ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ، ﮐﭽﮫ ﻣﯿﭩﮭﮯ ﺍﻧﺎﺭ ﺗﻮﮌ ﮐﺮ ﻻﺅ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﻮ ﻣﮩﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺶ ﮐﺮﻭ۔

ﻭﮦ ﭼﻨﺪ ﻣﻨﭩﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﺎﺭ ﺗﻮﮌ ﮐﺮ ﻻﯾﺎ۔ ﻣﺎﻟﮏ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺍﻧﺎﺭ ﭼﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﺳﺨﺖ ﮐﮭﭩﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﻮ ﺗﻮﮌﺍ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﮐﮭﭩﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﮐﻮ ﺁﻭﺍﺯ ﺩﯼ۔ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻣﯿﭩﮭﮯ ﺍﻧﺎﺭ ﻻﻧﮯ ﮐﻮ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ، ﺗﻢ ﮐﮭﭩﮯ ﺍﻧﺎﺭ ﻟﮯ ﺁﺋﮯ


۔


ﻭﮦ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺎﺭ ﻟﮯ ﺁﺋﮯ۔ ﻣﺎﻟﮏ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺗﻮﮌﺍ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﮐﮭﭩﮯ ﻧﮑﻠﮯ۔ ﻣﺎﻟﮏ ﺳﺨﺖ ﻧﺎﺭﺍﺽ ﮨﻮﺍ۔ ﺗﻢ ﺍﺗﻨﮯ ﺳﺎﻟﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﺱ ﺑﺎﻍ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻡ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﻮ۔ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺁﺝ ﺗﮏ ﮐﮭﭩﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﭩﮭﮯ ﺍﻧﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﯿﺰ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ؟

ﻣﺒﺎﺭﮎ ﻧﮯ ﻋﺮﺽ ﮐﯿﺎ ﺁﻗﺎ ! ﺑﻼﺷﺒﮧ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﭩﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﭩﮭﮯ ﺍﻧﺎﺭﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﯿﺰ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺁﺝ ﺗﮏ ﺍﺱ ﺑﺎﻍ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻧﺎﺭ ﮐﮭﺎﯾﺎ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﮐﮭﭩﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﭩﮭﮯ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﯿﺰ ﮐﯿﺴﯽ؟

ﻣﺎﻟﮏ ﻧﮯ ﺟﺐ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺳُﻨﺎ ﺗﻮ ﺳﻨﺎﭨﮯ ﻣﯿﮟ ﺁ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﺟﮧ ﭘﻮﭼﮭﯽ۔

ﻣﺒﺎﺭﮎ ﺑﻮﻟﮯ : ﺁﭖ ﻧﮯ ﺑﺎﻍ ﮐﯽ ﺭﮐﮭﻮﺍﻟﯽ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﭙﺮﺩ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ، ﺍﺱ ﮐﺎ ﭘﮭﻞ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ۔

ﺑﺎﻍ ﮐﮯ ﻣﺎﻟﮏ ﻧﮯ ﺟﺐ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺳُﻨﺎ ﺗﻮ ﻧﮩﺎﯾﺖ ﻣﺘﻌﺠﺐ ﮨﻮﺍ۔ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﮐﮯ ﺗﻘﻮﯼٰ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺎﻧﺖ ﺩﺍﺭﯼ ﭘﺮ ﻣﮩﻤﺎﻥ ﺷﺸﺪﺭ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ۔

ﺑﺎﻍ ﮐﮯ ﻣﺎﻟﮏ ﮐﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﺟﻮﺍﻥ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﻮﺯﻭﮞ ﺭﺷﺘﮯ ﮐﺎ ﻣﺘﻼﺷﯽ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺫﮨﻦ ﻣﯿﮟ ﺁﯾﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﮍﮪ ﮐﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺷﺨﺺ ﻣﻮﺯﻭﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﺎ۔

ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ : ﺍﮔﺮ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﭘﻨﺎ ﺩﺍﻣﺎﺩ ﺑﻨﺎ ﻟﻮﮞ ﺗﻮ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﮐﯿﺎ ﺧﯿﺎﻝ ﮨﮯ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﯾﮩﻮﺩ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﯽ ﻣﺎﻟﺪﺍﺭﯼ ﮐﻮ ،ﻋﯿﺴﺎﺋﯽ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺗﯽ ﮐﻮ ﺍﻭﺭ ﺍُﻣﺖِ ﻣﺤﻤﺪﯾﮧ ﮐﮯ ﻟﻮﮒ ﺗﻘﻮﯼٰ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﻨﺪﺍﺭﯼ ﮐﻮ ﻣﻌﯿﺎﺭ ﭨﮭﮩﺮﺍﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔

ﻣﺎﻟﮏ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺳُﻨﺎ ﺗﻮ ﻣﺰﯾﺪ ﻣﺘﺎﺛﺮ ﮨﻮﺍ۔ ﮔﮭﺮ ﺁﮐﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﮨﻠﯿﮧ ﺳﮯ ﻣﺸﻮﺭﮦ ﮐﯿﺎ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺑﻼﺷﺒﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﺳﮯ ﺑﮩﺘﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺭﺷﺘﮧ ﻧﻈﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﺎ۔ ﯾﻮﮞ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﮐﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﺍﺱ ﺑﺎﻍ ﮐﮯ ﻣﺎﻟﮏ ﮐﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﺳﮯ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﺟﻮﮌﮮ ﮐﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﺮﮐﺖ ﺳﮯ ﻧﻮﺍﺯﺍ ۔ ﺍﻥ ﮐﮯ ﮨﺎﮞ ﺍﯾﮏ ﺑﯿﭩﺎ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺍ۔ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺭﮐﮭﺎ ﺟﻮ ﺑﮍﮮ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﻣﺤﺪﺙ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﻨﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻋﻠﻢ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺟﮩﺎﻥ ﮐﻮ ﻣﻨﻮﺭﮦ ﮐﯿﺎ۔

ﺩﻧﯿﺎ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺍﻣﺎﻡ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﺟﺎﻧﺘﯽ ﮨﮯ۔

‏( ﺳﻴﺮﺓ ﺍﻻﻣﺎﻡ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺍﻟﻤﺒﺎﺭﻙ ‏)

# ﺣﻼﻝ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﻧﯿﮑﯽ ﮐﯽ ﺗﻮﻓﯿﻖ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ، ﺍﭼﮭﮯ ﺍﺧﻼﻕ ﺟﻨﻢ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ، ﺑﺮﺍﺋﯽ ﺳﮯ ﻧﻔﺮﺕ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ، ﮔﻨﺎﮦ ﻣﭧ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﯽ ﺭﺿﺎ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺵ ﻧﻮﺩﯼ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ، ﺟﺲ ﮐﮯ ﻧﺘﯿﺠﮧ ﻣﯿﮟ ﺑﻨﺪﮦ ﺟﻨﺖ ﮐﺎ ﻣﺴﺘﺤﻖ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔

ﺟﺐ ﮐﮧ ﺣﺮﺍﻡ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﻧﯿﮑﯽ ﮐﯽ ﺗﻮﻓﯿﻖ ﺳﻠﺐ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ، ﺑﺮﺍﺋﯽ ﺁﺳﺎﻥ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﮯ، ﺑﺮﮮ ﺍﺧﻼﻕ ﺟﻨﻢ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ، ﻧﯿﮏ ﺍﻋﻤﺎﻝ ﻗﺒﻮﻝ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﺧﺪﺍ ﮐﯽ ﻧﺎﺭﺍﺿﮕﯽ ﻧﺼﯿﺐ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ۔ ﺟﺲ ﮐﮯ ﻧﺘﯿﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﺩﻭﺯﺥ ﻣﻘﺪﺭ ﺑﻦ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ۔

*نوٹ* اس پیغام کو دوسروں تک پہنچائیے تاکہ اللہ کسی کی زندگی کو آپ کے ذریعے بدل دے

𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼

  ❤️      ✍🏻ㅤ   📩      📤 

  ˡᶦᵏᵉ   ᶜᵒᵐᵐᵉⁿᵗ   ˢᵃᵛᵉ     ˢʰᵃʳᵉ

Saturday, 20 January 2024

👈 *جذبات_احساسات کی "ایکسپائری ڈیٹ" !!


👈 *جذبات_احساسات کی "ایکسپائری ڈیٹ" !!* 


ایک بوڑھے کسان نے اپنی بیمار بیوی کو گھوڑا گاڑی کی عقبی نشست پر لٹا دیا، خود وہ اگلی نشست پر سوار ہوا، گاڑی کو کھینچنے کے لیے اس کے آگے مریل سا گھوڑا جُتا ہوا تھا۔ اور یوں وہ اسے علاج کے لیے دور دراز شہر لے گیا۔

مسافت طویل تھی تو رستے میں اس کسان نے بولنا شروع کر دیا، وہ روانی سے بولتا جارہا تھا اور اپنا آپ کھولتا جارہا تھا یوں جیسے وہ خود سے بات کر رہا ہو، لیکن ساتھ ہی وہ اپنی بیمار بیوی کو تسلی بھی دے رہا ہو، جو چالیس سال تک اس کے ساتھ دکھوں، مصیبتوں، تکلیفوں، دردوں کو سہتے ہوئے مشقت میں اس کی بھرپور مدد کرتی رہی تھی۔ باہر کھیتوں میں اور گھر کے کام کاج کا بوجھ اکیلے اٹھانے کی مشقت..

کسان جیسے جیسے بولتا جارہا تھا اسے محسوس ہو رہا تھا کہ وہ گذشتہ برسوں میں اس کے ساتھ ظالمانہ اور غیر منصفانہ سلوک کرتا رہا ہے، اور اسے اب اس کے ساتھ نرمی اور محبت سے پیش آنا چاہیے، اور اسے میٹھے بول سے دلاسہ دینا چاہیے




اس نے اپنی بیوی کو بتانا شروع کر دیا کہ نہ صرف اس نے اس کے ساتھ ظلم کیا ہے، بلکہ زندگی نے بھی اس کے ساتھ ظلم کیا ہے، کیونکہ اسے اپنی روزمرہ کی زندگی میں اس سے کوئی مہربان لفظ کہنے ، ہمدردی کے دو میٹھے بول پیش کرنے ، یا اسے پانی جیسی پاکیزہ اور لطیف مسکراہٹ دینے کا وقت نہیں ملا، کٹھن حیات میں آسانی کا ایک لمحہ بھی اسے نہ دے سکا!

وہ شخص تمام راستے پچھتاوے کا احساس لیے یاسیت بھرے لہجے میں بغیر رکے بولتا رہا. ایک ندی کا پانی جس طرح پتھروں پر مسلسل گرتا رہتا ہے تو ان پر ان مٹ گہری لکیریں ڈال دیتا ہے، اسی طرح غم بھی انسانی روح پر کنندہ ہوچکے تھے .. وہ ان غموں کا مداوا کرنا چاہتا تھا، اور اپنے سابقہ روپے کی تلافی کے لیے محبت، نرمی اور ازدواجی زندگی میں گرمجوشی پیدا کرنے والے ان لفظوں کا سہارا لینا چاہتا تھا جو اس نے گذشتہ چالیس برسوں میں استعمال نہ کیے تھے. اس نے عقبی نشست پر لیٹی بیمار بیوی سے وعدے کرنے شروع کیے کہ باقی ماندہ زندگی وہ اس کے لیے وہ سب کچھ حاصل کرے گا جس کی اسے کبھی خواہش رہی تھی اور آئندہ بھی وہ خواہش کرے گی...

جب وہ شہر پہنچا تو آگے والی نشست سے اُٹھ کر عقبی نشست پر سے زندگی میں پہلی بار اسے اپنی بانہوں میں بھر کر اٹھایا اور ڈاکٹر کے پاس لے گیا، مگر ڈاکٹر نے دیکھتے ہی اسے کہا کہ یہ تو کب کی مر چکی ہے، وہ اب ایک سرد لاش کے سوا کچھ نہ تھی۔ طویل رستے میں زندگی پہلی بار اس کی میٹھی، شفقت بھری گفتگو سننے سے پہلے ہی وہ مر چکی تھی! 


مصنف: روسی ادیب انتون چیخوف

عربی زبان سے اردو قالب: توقیر بُھملہ


اور یہاں پر چیخوف کی لکھی ہوئی درد کی کہانی ختم ہوتے ہوئے ہمیں اس بوڑھے کسان کی طرح تنہا چھوڑ دیتی ہے جو اپنی بیوی کے آخری لمحات میں شاید اپنے آپ سے ہمدردی جتا رہا تھا، کیوں کہ جسے وہ سب کہنا چاہتا تھا اس کے لیے تو بہت دیر ہو چکی تھی۔

دوستو یاد رکھو الفاظ، احساسات اور جذبات کی بھی "ایکسپائری ڈیٹ" ہوتی ہے ایک وقت آتا ہے کہ الفاظ کارآمد نہیں رہتے اور وہ عدم معنی والی محض کھوکھلی آواز بن کر رہ جاتی ہے

ایک مقررہ وقت کے بعد ہم جو کہنا چاہتے ہیں وہ الفاظ اپنا مطلب کھوچکے ہوتے ہیں!

  ہم ایک دوسرے کی قدر و قیمت اس وقت تک نہیں جانتے جب تک وہ چیز ہم سے کھو نہ جائے، اور ایک دوسرے کی قدر کرنے سے تاعمر ہچکچاتے رہتے ہیں اور یوں تمام وقت ان کہی میں گزار دیتے ہیں، سچ کہتے ہیں کہ آخر وقت پر گلاب دینا اس سے بہتر ہے کہ زندگی میں اپنا سب کچھ ایک دوسرے کو دان کر دیں اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے۔

صحیح وقت پر شیریں سخن کرنا اس سے بہتر ہے کہ احساس و تعلقات ختم ہوجانے کے بعد طویل نظم لکھی جائے۔

دیر سے آنے والی چیزوں کا کوئی فائدہ نہیں، جیسے کہ مردہ کی پیشانی پر بوسہ لینا۔

"خوبصورت چیزوں کو ملتوی نہ کریں ... وہ دوبارہ نہیں ہوسکتی ہیں۔"


*نوٹ* اس پیغام کو دوسروں تک پہنچائیے تاکہ اللہ کسی کی زندگی کو آپ کے ذریعے بدل دے

𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼

  ❤️      ✍🏻ㅤ   📩      📤 

  ˡᶦᵏᵉ   ᶜᵒᵐᵐᵉⁿᵗ   ˢᵃᵛᵉ     ˢʰᵃʳᵉ

Friday, 19 January 2024

*اساتذہ کرام ضرور پڑھیے گا۔

 *اساتذہ کرام ضرور پڑھیے گا۔* 

1. کبهی بهی *بغیر مرض یا اشد ضرورت * کے  *رخصت* نہ لیں. اس سے آپ *دو گناہوں* کو جمع کریں گے: *جهوٹ* اور *حرام مال کھانا* , اور اللّٰہ کی قسم *اللّٰہ تعالی کا خوف اور تقویٰ*  سب سے *بہترین چیز* ہے.

2. اپنے طالب علموں کی *غلطیوں* سے *درگزر* کریں, کیونکہ نہ تو وہ فرشتے ہیں اور نہ شیاطین, اور آپ انکے مربی ہیں.

3 *. اپنے طالب علموں* کے لیے *اپنی محبت اور فکر* کا اظہار کریں, اس سے انکے *دلوں* میں آپکے لیے *بہترین جگہ* بنے گی.

4. یاد رکھیں, کہ بہت سے لوگ  *اپنے اساتذہ* کے *حوصلہ افزائی والے ایک جملے* سے *عظیم* بن گئے اور بلندیوں پہ پہنچ گئے, تو آپ بهی *عظیم لوگ بنانے والے بنیں۔* 

5. اپنے *معاملات* کو طلبہ کے ساتھ اچھا رکھیں تاکہ آپ *موت* کے بعد بهی ان کی *دعاؤں* کا حصہ بنے رهیں.

6. *آپکے وقت کا ہر منٹ طالب علم کا حق ہے,* اگر آپ *وقت ضائع* کرتے ہیں تو *قیامت* کے دن آپ سے اس کے بارے میں *پوچھا جائے گا* .

7. *آپکے بهی بچے* ہیں جو آپ جیسے اساتذہ کے پاس تعلیم حاصل کر رہے ہیں, آپ *اوروں کے بچوں* کے ساتھ اچھا معاملہ کریں تاکہ *آپکے بچوں* کے ساتھ بهی *اچھا معاملہ ہو.* 

8. اپنی *نیت کو خالص* رکھیں, *اجر کی امید اور اخلاص* سے کام کریں تو آپکا *پورا دن نیکیوں* میں لکھا جائے گا۔   

 *نوجوان نسل کی اصلاح کرکے اپنے لیے صدقہ جاریہ بنائیں...*

                *جزاکم اللہ تعالی خیرا


👈 *اسلام میں عشقِ مجازی کا تصور __!!*

     👈 *اسلام میں عشقِ مجازی کا تصور __!!*  نبی کریم ﷺ نے پوچھا : ” تم مالدار بھی ہو ؟“ جی الحمدللہ !“ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ”پھر تو تم شی...