Tuesday, 16 January 2024

*کبوتروں کی گُنبدِ خضریٰ سے محبت کا عالم :*


 *کبوتروں کی گُنبدِ خضریٰ سے محبت کا عالم :* 


۔"" "" "" "" "" "" "" "" "" "" "" "" "" "" "" ""

ایک مرتبہ اِنتظامیہ نے مسجدِ نبوی شریف ﷺ کے حرم کو صاف سُتھرا رکھنے کے لئے فیصلہ کیا کہ حرم شریف میں کبوتروں کے لئے دانہ نہ ڈالا جائے ، اس طرح کبوتر دانے کی تلاش کے لئے دوسری جگہوں پر منتقل ہو جائیں گے ۔ اس حُکم پر عمل کیا گیا اور کئی دن تک دانہ نہ ڈالا گیا ۔ مگر کبوتروں کی گُنبدِ خضریٰ سے محبت کا یہ عالم تھا کہ بُھوک سے مر رہے تھے، مگر آستانہء محبوب ﷺ چھوڑنے کے لئے تیار نہیں تھے ۔ اہلِ مدینہ نے اپنی آنکھوں سے یہ عشقُ محبت بھرا منظر دیکھا ۔ پھر دنیا میں یہ بات شُہرت پکڑ گئی تو لوگوں نے حکومت کو تار دیئے اور اِصرار کیا ، تب حکومت نے پھر حسبِ سابق کبوتروں کو دانہ ڈالنا شروع کیا ۔

( انوارِ قُطبِ مدینہ ، صفحہ ٥٤ )


یہ تمنّا ھے تیرے  ﷺ   شہر کے اندر ہوتا

میں تیرے ﷺ گُنبدِ خضریٰ کا کبوتر ہوتا


 عرب خبر رساں ادارےالعربیہ ڈاٹ نیٹ کی حرم پاک کے کبوتروں بارے دلچسپ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ذوالحجہ کے ابتدائی پانچ دنوں میں نیلگوں اور سبز پروں والے ان کبوتروں کے جھنڈ کے جھنڈ مکہ مکرمہ کی جانب آتے ہیں اور پھر حج کے مہینے ذوالحجہ کے وسط میں واپس مدینہ منورہ لوٹ جاتے ہیں۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ احرام یا اس کے بغیر کسی طور پر ان کبوتروں کا شکار جائز نہیں، ان کے شکار یا قتل کی صورت میں فدیہ واجب آ جاتا ہے۔ ان کبوتروں کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ یہ کبوتر ان کبوتروں کی نسل میں سے ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے کفار مکہ سے پناہ کیلئے غارِ ثور میں قیام کے دوران غار کے دھانے پر گھونسلے بنا ڈالے تھے، تاکہ کفار یہ خیال کریں کہ یہاں کوئی نہیں آیا، اگر آیا ہوتا تو غار میں داخل ہوتے وقت ضرور کبوتروں کے یہ انڈے  ٹکرانے سے ٹوٹ جاتے۔


کبوتروں کے حوالے سے ایک اور مشہور روایت یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ طوفان نوح کے وقت جب بارش تھم گئی اور حضرت نوح علیہ السلام نے خشک زمین بارے معلوم کرنا چاہا تو آپ نے ایک کبوتر کو خشکی کا پتہ معلوم کرنے کیلئے استعمال کیا تھا اور حرم پاک کے کبوتر اسی کبوتر کی نسل سے ہیں۔

*نوٹ* اس پیغام کو دوسروں تک پہنچائیے تاکہ اللہ کسی کی زندگی کو آپ کے ذریعے بدل دے 

𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼

  ❤️      ✍🏻ㅤ   📩      📤 

  ˡᶦᵏᵉ   ᶜᵒᵐᵐᵉⁿᵗ   ˢᵃᵛᵉ     ˢʰᵃʳᵉ

No comments:

Post a Comment