👈 *والدین کی اطاعت کا صلہ *
مفتی محمد تقی عثمانی صاحب ایک سال میں کئی کئی بار حرمین شریفین کیسے جاتے ہیں؟
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ نےاپنا ایک واقعہ سنایا کہ الله تعالیٰ
نے سن 1964ء میں والدین کے ساتھ حج بیت الله کی سعادت نصیب فرمائی تھی اور اس سے ایک سال قبل سن 1963ء میں بڑے بھائی جناب ولی رازی صاحب کے ہمراہ عمرہ کی سعادت نصیب ہوچکی تھی، لیکن اس کے بعد دس سال تک کوئی ایسی صورت نہ بن پائی کہ حاضری کی نوبت آتی، ہر سال جب بھی حج کا موسم آتا تو طبیعت مچلتی رہتی تھی لیکن وسائل نہ ہونے کی وجہ سے یہ شوق دل میں ہی رہتا اور پھر ہر سال اس شوق میں اضافہ ہی ہوتا جاتا تھا، دس سال اسی طرح گزر گئے کہ کوئی صورت نہ بن پائی، الله تعالیٰ سے دعا بھی کرتے رہتے کہ کوئی سبیل نکال دے۔
1974ء کے سال جب حج کا موسم آیا تو ایک صاحب نے حجِ بدل کرنے کی پیشکش کر دی، شوق تو پہلے سے تھا اب الله تعالیٰ نے جانے کی صورت بھی پیدا فرما دی تھی۔ دس سال بعد حاضری کا شرف مل رہا تھا لیکن دوسری طرف ان دنوں حضرت والد ماجد (مفتی شفیع عثمانیؒ صاحب) صاحبِ فراش تھے اور میرا اکثر وقت انہی کے پاس گزرتا تھا۔ بلکہ میں نے اپنا دفتر بھی حضرت والد صاحبؒ کے قریب ہی منتقل کر لیا تھا تاکہ زیادہ سے زیادہ دیکھ بھال کی جاسکے۔
اب ایک طرف حضرت والد صاحبؒ کی علالت تھی اور دوسری طرف جذبۂ شوق کی تکمیل اور دلی چاہت کے پورا ہونے کی پیشکش تھی، لیکن طبیعت میں بوجھل پن تھا، مکمل رضامندی کسی طرف بھی نہیں تھی، عجیب گوناگوں کیفیت میں مبتلا ہوگیا تھا، حضرت والد صاحب رح کے سامنے اس پیشکش کا
تذکرہ کیا تو فرمانے لگے:
"چلے جاؤ..! الله تعالیٰ موقع دے رہے ہیں تو حاضری دے آؤ" ۔ والد صاحبؒ کی اجازت ہونے کے بعد بھی انکو اس حال میں چھوڑ کر جانے کا مَن نہیں کر رہا تھا اسی کشمکش میں، میں نے ان پیشکش کرنے والے صاحب کو انکار کردیا
چند دن بعد حضرت والد صاحبؒ نے پوچھا :
"ہاں بھئی! تمہاری اس پیشکش کا کیا بنا؟ گئے نہیں حج کرنے.؟
تو میں نے عرض کیا کہ :
" انہیں میں نے انکار کردیا ہے".
والد صاحبؒ نے دریافت فرمایا کہ :
کیوں...؟؟
تو اس وقت میری زبان سے یہ جملہ نکلا :
"حضرت ہمارا حج و عمرہ تو بس یہیں ہے".
یہ سن کر حضرت والد صاحبؒ بہت خوش ہوئے، بہت دعاؤں سے نوازا اور فرمایا :
"تم وہاں اتنا جاؤ گے، الله تمہیں اتنی توفیق بخشے گا کہ
لوگ رشک کریں گے ۔"
بس حضرت والد صاحبؒ کی دعاؤں کی برکت ہے کہ اس کے ایک سال بعد یعنی 1975ء سے ہی اللہ پاک اپنے فضل سے ایسی ترتیب بنا دی کہ ہر سال کم از کم اس ناکارہ کو تین بار تو حاضری کی توفیق فرماہی دیتے ہیں، جس کو وہاں حاضری ملنی ہی نہیں چاہیے تھی اور کبھی تو سال بھر میں چھ چھ بار بھی حاضری کا شرف مل جاتا ہے یہ محض الله تعالیٰ کا فضل و احسان ہے۔
اس وقت میرے سامنے دو چیزیں تھیں، ایک تو شوق کی تکمیل کا موقع مل رہا تھا اور بہت بڑی سعادت تھی کہ حرمین شریفین حاضری کا موقع دس سال بعد مل رہا تھا لیکن یہ نفلی حج تھا اور دوسری طرف حضرت والد صاحب رح کی خدمت تھی جو کہ فرائض کے بعد سب سے مقدم ہے۔ تو میں نے اس کو چنا جس کا وقت تقاضا کررہا تھا۔ اپنے شوق کو پیچھے کردیا، وقت کا تقاضا تھا کہ والد صاحب بیمار ہیں انکی خدمت کی جائے، جبکہ دوسری طرف نفلی حج ہے۔ اس لیے جس کی اہمیت تھی اس کو مقدم کیا جس کا صلہ الله تعالیٰ نے پھر بے بہا دیا۔
میرے شیخ مولانا مسیح الله خان صاحبؒ فرماتے تھے "دین، شوق پورا کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ دین نام ہے اتباع کا". (منقول)
*نوٹ* اس پیغام کو دوسروں تک پہنچائیے تاکہ اللہ کسی کی زندگی کو آپ کے ذریعے بدل دے
𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼
❤️ ✍🏻ㅤ 📩 📤
ˡᶦᵏᵉ ᶜᵒᵐᵐᵉⁿᵗ ˢᵃᵛᵉ ˢʰᵃʳᵉ
No comments:
Post a Comment