🩵 *ٹیپو سلطان شہیدؒ نے اپنے اکثر خوابوں کا ریکارڈ رکھا*
اور اس کیلئے باقاعدہ ایک رجسٹر بنایا ۔ اسے جب بھی کوئی خواب آتا اور وہ اس خواب کی صداقت پر یقین رکھتا تو صبح اٹھ کر پہلا کام یہ کرتا کہ اس خواب کوایک رجسٹر میں درج کرتا اور اس کے ساتھ ہی اس کی تعبیر بھی لکھ دیتا ۔
ہر انسان اپنے خوابوں کو چھپاتا ہے ۔ یہ شاید اس کی فطرت میں داخل ہے یا یہ کوئی جبلی جذبہ ہے ۔ بہرحال سلطان نے ان خوابوں کا ذکر اپنے عزیز ترین دوستوں سے بھی کبھی نہ کیا اور رجسٹر تو وہ اپنے بستر میں چھپا کر سوتا تھا ۔
تاریخی شہادت : لندن کی انڈیا آفس لائبریری میں ایک عجیب وغریب مسودہ محفوظ ہے ۔ اس مسودے میں سلطان ٹیپو کے اپنے ہاتھ سے لکھے ہوئے وہ خواب درج ہیں جن کا عرصہ تقریبا پندرہ سال بنتا ہے ۔ مئی 1799 ء میں جب سرنگا پٹم میں سلطان ٹیپو کو شکست ہوگئی اور وہ شہید ہوگیا تو اس کے محل کی تلاشی لی گئی ۔ اس تلاشی کے دوران اس کی خوابگاہ سے ایک رجسٹر برآمد ہوا ۔ جس پر سلطان کے اپنے ہاتھ کے لکھے ہوئے خواب درج ہیں ۔ ایک شخص حبیب اللہ سلطان کا خاص منشی تھا ۔ اس سے سلطان کی کوئی تحریر پوشیدہ نہ تھی لیکن جب یہ رجسٹر تلاشی لینے والی ٹیم کے سربراہ کرنل پیٹرک کے ہاتھ لگا اور اس نے حبیب اللہ کو دکھایا تو اس نے اس بات کی تصدیق کر دی کہ یہ تحریر واقعی سلطان کی ہے ۔
ایک خواب میں جو سُلطان ٹیپو نے اس وقت دیکھا جب ١۷٨٦ء میں بیک وقت انہیں مرہٹوں اور نظام دکن سے مقابلہ درپیش تھا۔روزِ محشر کا نقشہ نظر کے سامنے ہے۔چاروں طرف نفسانفسی کا عالم ہے۔اسی عالمِ اِضطراب و التہاب میں یکایک ایک نہایت خوبصورت ، وجیہہ اور روشن آنکھوں والے بُزُرگ سُلطان کا ہاتھ تھام لیتے ہیں اور پوچھتے ہیں:
" جانتے ہو میں کون ہوں؟"
سُلطان لاعِلمی کا اِظہار کرتے ہیں تو وہ بُزُرگ فرماتے ہیں:
" میں علی ( کرم ﷲ وجہہ ) ہوں۔ جوہرِ آئینۂ تجلیاتﷺ نے فرمایا ہیکہ میں تمہارے بغیر جنّت میں قدم نہیں رکھوں گا۔میں تمہارا اِنتظار کروں گا اور تمہیں ساتھ لے کر جنّت میں جاؤں گا۔"
خواب بیان کر کے سُلطان نے لِکھا کہ:
" جب میں جاگا تو خوشی سے میرا تمام جِسم کانپ رہا تھا۔ﷲ تعالیٰ قادرِ مُطلق ہے اور رسول ﷲ صلی علیہ وآلہ وسلم شافع روزِ جزا ہیں۔"
(چند یادیں چند تاثرات، صفحہ: ٣٦۴ )
سِیرتُ النّبی بعد از وصال النّبی صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم،حِصّہ چہارم، صفحہ: ٣١۷ )
*نوٹ* اس پیغام کو دوسروں تک پہنچائیے تاکہ اللہ کسی کی زندگی کو آپ کے ذریعے بدل دے
No comments:
Post a Comment