Monday, 22 January 2024

👈 *اسلام میں عشقِ مجازی کا تصور __!!*


     👈 *اسلام میں عشقِ مجازی کا تصور __!!* 

نبی کریم ﷺ نے پوچھا : ” تم مالدار بھی ہو ؟“

جی الحمدللہ !“

نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ”پھر تو تم شیطان کے بھائی ہو اگر تم عیسائیوں میں ہوتے تو ان کے راہبوں میں شمار ہوتے لیکن ہماری سنت تو نکاح ہے تم میں سے بدترین لوگ کنوارے ہیں اور گھٹیا ترین موت مرنے والے کنوارے ہیں کیا تم شیطان سے لڑتے ہو ؟ شیطان کے پاس نیک آدمیوں کے لیے عورتوں سے زیادہ کارگر ہتھیار کوئی نہیں سوائے اس کے کہ وہ شادی شدہ ہوں یہی لوگ پاکیزہ اور گندگی سے مبرا ہوتے ہیں عکاف یہ عورتیں تو حضرت ایوب، داؤد ، یوسف  اور کرسف کی ساتھی رہی ہیں“

بشر بن عطیہ نے پوچھا :

”یا رسول اللہ ﷺ ! کرسف کون تھا ؟“

نبی کریم ﷺ نے فرمایا 



”یہ ایک آدمی تھا جو کسی ساحل پر تین سو سال تک اللہ کی عبادت میں مصروف رہا دن کو روزہ رکھتا تھا اور رات کو قیام کرتا تھا لیکن پھر ایک عورت کے عشق کے چکر میں پھنس کر اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کر بیٹھا اور اللہ کی عبادت بھی چھوڑ دی بعد میں اللہ نے اس کی دستگیری فرمائی اور اس کی توبہ قبول فرمالی ارے عکاف ! نکاح کرلو ورنہ تم تذبذب کا شکار رہو گے۔“

 انہوں نے عرض کیا:

” یا رسول اللہ ﷺ ! آپ خود ہی میرا نکاح کر دیجئے“

نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”میں نے کریمہ بنت کلثوم حمیری سے تمہارا نکاح کردیا۔“

(مسند احمد جلد نہم ۔ حدیث  1551)

اس حدیث سے معلوم ہوا ۔

(1) نکاح کی قدرت رکھنے کے باوجود جو نکاح نہ کرے وہ شیطان کے راستے پر ہے۔

(2) نیک شخص اگر کنوارہ ہے تو اس کی نیکی کو عورت کا عشق کبھی بھی گناہ و کفر تک لے جاسکتا ہے چاہے وہ تین سو سال کا شب بیدار عابد و تین سو سال کا روزہ دار ہی کیوں  نہ ہو۔

(3) عورت کا عشق کنواروں کے لیے فتنہ ہے۔

(4) عورت کے عشق کے اس فتنے سے بچنے کا واحد حل نکاح ہے۔

*نوٹ* اس پیغام کو دوسروں تک پہنچائیے تاکہ اللہ کسی کی زندگی کو آپ کے ذریعے بدل دے

𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼

  ❤️      ✍🏻ㅤ   📩      📤 

  ˡᶦᵏᵉ   ᶜᵒᵐᵐᵉⁿᵗ   ˢᵃᵛᵉ     ˢʰᵃʳᵉ


👈 *والدین کی اطاعت کا صلہ __!!*


             👈 *والدین کی اطاعت کا صلہ *


مفتی محمد تقی عثمانی صاحب ایک سال میں کئی کئی بار حرمین شریفین کیسے جاتے ہیں؟

شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ نےاپنا ایک واقعہ سنایا کہ الله تعالیٰ

 نے سن 1964ء میں والدین کے ساتھ حج بیت الله کی سعادت نصیب فرمائی تھی اور اس سے ایک سال قبل سن 1963ء میں بڑے بھائی جناب ولی رازی صاحب کے ہمراہ عمرہ کی سعادت نصیب ہوچکی تھی، لیکن اس کے بعد دس سال تک کوئی ایسی صورت نہ بن پائی کہ حاضری کی نوبت آتی، ہر سال جب بھی حج کا موسم آتا تو طبیعت مچلتی رہتی تھی لیکن وسائل نہ ہونے کی وجہ سے یہ شوق دل میں ہی رہتا اور پھر ہر سال اس شوق میں اضافہ ہی ہوتا جاتا تھا، دس سال اسی طرح گزر گئے کہ کوئی صورت نہ بن پائی، الله تعالیٰ سے دعا بھی کرتے رہتے کہ کوئی سبیل نکال دے۔

1974ء کے سال جب حج کا موسم آیا تو ایک صاحب نے حجِ بدل کرنے کی پیشکش کر دی، شوق تو پہلے سے تھا اب الله تعالیٰ نے جانے کی صورت بھی پیدا فرما دی تھی۔ دس سال بعد حاضری کا شرف مل رہا تھا لیکن دوسری طرف ان دنوں حضرت والد ماجد (مفتی شفیع عثمانیؒ صاحب) صاحبِ فراش تھے اور میرا اکثر وقت انہی کے پاس گزرتا تھا۔ بلکہ میں نے اپنا دفتر بھی حضرت والد صاحبؒ کے قریب ہی منتقل کر لیا تھا تاکہ زیادہ سے زیادہ دیکھ بھال کی جاسکے۔ 


اب ایک طرف حضرت والد صاحبؒ کی علالت تھی اور دوسری طرف جذبۂ شوق کی تکمیل اور دلی چاہت کے پورا ہونے کی پیشکش تھی، لیکن طبیعت میں بوجھل پن تھا، مکمل رضامندی کسی طرف بھی نہیں تھی، عجیب گوناگوں کیفیت میں مبتلا ہوگیا تھا، حضرت والد صاحب رح کے سامنے اس پیشکش کا 

تذکرہ کیا تو فرمانے لگے:



"چلے جاؤ..! الله تعالیٰ موقع دے رہے ہیں تو حاضری دے آؤ" ۔ والد صاحبؒ کی اجازت ہونے کے بعد بھی انکو اس حال میں چھوڑ کر جانے کا مَن نہیں کر رہا تھا اسی کشمکش میں، میں نے ان پیشکش کرنے والے صاحب کو انکار کردیا 

چند دن بعد حضرت والد صاحبؒ نے پوچھا :

"ہاں بھئی! تمہاری اس پیشکش کا کیا بنا؟ گئے نہیں حج کرنے.؟

تو میں نے عرض کیا کہ :

" انہیں میں نے انکار کردیا ہے".

والد صاحبؒ نے دریافت فرمایا کہ :

کیوں...؟؟

تو اس وقت میری زبان سے یہ جملہ نکلا :

"حضرت ہمارا حج و عمرہ تو بس یہیں ہے".

یہ سن کر حضرت والد صاحبؒ بہت خوش ہوئے، بہت دعاؤں سے نوازا اور فرمایا :

"تم وہاں اتنا جاؤ گے، الله تمہیں اتنی توفیق بخشے گا کہ

لوگ رشک کریں گے ۔"


بس حضرت والد صاحبؒ کی دعاؤں کی برکت ہے کہ اس کے ایک سال بعد یعنی 1975ء سے ہی اللہ پاک اپنے فضل سے ایسی ترتیب بنا دی کہ ہر سال کم از کم اس ناکارہ کو تین بار تو حاضری کی توفیق فرماہی دیتے ہیں، جس کو وہاں حاضری ملنی ہی نہیں چاہیے تھی اور کبھی تو سال بھر میں چھ چھ بار بھی حاضری کا شرف مل جاتا ہے یہ محض الله تعالیٰ کا فضل و احسان ہے۔


اس وقت میرے سامنے دو چیزیں تھیں، ایک تو شوق کی تکمیل کا موقع مل رہا تھا اور بہت بڑی سعادت تھی کہ حرمین شریفین حاضری کا موقع دس سال بعد مل رہا تھا لیکن یہ نفلی حج تھا اور دوسری طرف حضرت والد صاحب رح کی خدمت تھی جو کہ فرائض کے بعد سب سے مقدم ہے۔ تو میں نے اس کو چنا جس کا وقت تقاضا کررہا تھا۔ اپنے شوق کو پیچھے کردیا، وقت کا تقاضا تھا کہ والد صاحب بیمار ہیں انکی خدمت کی جائے، جبکہ دوسری طرف نفلی حج ہے۔ اس لیے جس کی اہمیت تھی اس کو مقدم کیا جس کا صلہ الله تعالیٰ نے پھر بے بہا دیا۔ 

میرے شیخ مولانا مسیح الله خان صاحبؒ فرماتے تھے "دین، شوق پورا کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ دین نام ہے اتباع کا".  (منقول)

*نوٹ* اس پیغام کو دوسروں تک پہنچائیے تاکہ اللہ کسی کی زندگی کو آپ کے ذریعے بدل دے

𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼

  ❤️      ✍🏻ㅤ   📩      📤 

  ˡᶦᵏᵉ   ᶜᵒᵐᵐᵉⁿᵗ   ˢᵃᵛᵉ     ˢʰᵃʳᵉ

دن میں پانچ وقت مولوی آگے ہی ہوتا ہے

 دن میں پانچ وقت مولوی آگے ہی ہوتا ہے 



                                 

 


Sunday, 21 January 2024

👈 *''ایک خوفناک مچھلی'' __؟؟*


          👈 *''ایک خوفناک مچھلی'' __؟؟* 


حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تین سو سواروں کے ساتھ بھیجا اور ہمارا امیر ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کو بنایا، تاکہ ہم قریش کے قافلۂ تجارت کی گھات میں رہیں، کھجور کا ایک تھیلا زادِ راہ کے طور پر ساتھ لے لیا، حضرت ابو عبید رضی اللہ تعالی عنہ ایک ایک کھجور ہمیں دیتے تھے، (راوی) کہتے ہیں: میں نے عرض کیا کہ ایک کھجور سے کیا ہوتا ہوگا؟ حضرت جابرؓ نے فرمایا کہ ہم اس کو یوں چوستے تھے جیسے بچہ چوستا ہے، پھر اس پر پانی پی لیتے تھے، پس وہ کھجور پورے دن کے لئے کافی ہوتی تھی، ( جب کھجوریں ختم ہو گئیں تو ) ہم اپنی لاٹھیوں سے پتے جھاڑ کر انہیں پانی میں بھگو کے کھانے لگے، آخر ہم سمندر کے کنارے 


پہنچ گئے، اتفاق سے سمندر کے ساحل سے ہمیں ایک مچھلی ملی جو بڑے ریت کے ٹیلے کی مانند تھی، ہم اس کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ ایک حیوان ہے جس کو عنبر کہتے تھے، حضرت ابو عبیدہ نے فرمایا کہ یہ مردار ہے، پھر فرمایا کہ نہیں، ہم تو رسولؐ کے قاصد اور پیغام رساں ہیں اور اللہ کے راستے میں ہیں اور پھر تم بے تابی کی حالت کو بھی پہنچ چکے ہو، اس لیے کھالو، (راوی کا بیان ہے کہ ہم ایک ماہ تک ( کھاتے) رہے، ہم تین سو افراد تھے، (ہم نے خوب کھایا کہ ) ہم موٹے ہو گئے، (راوی) کہتے ہیں کہ ہم اس مچھلی کی آنکھ کے گڑھے سے تیل کے مٹکے نکالتے تھے اور بیل کے برابر گوشت کے ٹکڑے کرتے تھے، حضرت ابو عبیدہ نے تیرہ آدمی لے کر اس مچھلی کی آنکھ کے گڑھے میں بٹھائے (تو وہ بیٹھ گئے ) اور اس مچھلی کی ایک پسلی کو کھڑا کیا اور سب سے بڑے کجاوے والے اونٹ کو اس کے نیچے سے گزارا (تو وہ گزر گیا)، پھر ہم نے اس کے گوشت کے پارچے کر کے خشک کیا اور زادِ راہ کے طور پر اپنے ساتھ رکھ لیا، پھر جب ہم مدینہ پہنچ کر رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو سارا واقعہ ذکر کیا تو آپؐ نے فرمایا کہ وہ رزق تھا جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے ظاہر کیا تھا، اگر تمہارے پاس اس میں سے کچھ بچا ہو تو مجھے بھی کھلاؤ چنانچہ ایک صاحب نے لا کر آپؐ کی خدمت میں پیش کیا اور آپ نے تناول فرمایا "

اخرجه البخاری (۴۳۶۰) و مسلم (۱۹۳۵)]

*نوٹ* اس پیغام کو دوسروں تک پہنچائیے تاکہ اللہ کسی کی زندگی کو آپ کے ذریعے بدل دے





👈 *اولاد کے عروج کا راز سچی حکایت __!!


👈 *اولاد کے عروج کا راز سچی حکایت __!!* 


ﺍﻧﮑﺎ ﻧﺎﻡ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﺗﮭﺎ۔ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﻍ ﻣﯿﮟ ﻋﺮﺻﮧ ﺳﮯ ﺑﻄﻮﺭ ﭘﮩﺮﮮ ﺩﺍﺭ ﮐﺎﻡ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ۔ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺍﺱ ﺑﺎﻍ ﮐﺎ ﻣﺎﻟﮏ ﺍﭘﻨﮯ ﭼﻨﺪ ﻣﮩﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﺎﻍ ﻣﯿﮟ ﺁﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ : ﻣﺒﺎﺭﮎ ! ﻣﮩﻤﺎﻥ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ، ﮐﭽﮫ ﻣﯿﭩﮭﮯ ﺍﻧﺎﺭ ﺗﻮﮌ ﮐﺮ ﻻﺅ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﻮ ﻣﮩﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺶ ﮐﺮﻭ۔

ﻭﮦ ﭼﻨﺪ ﻣﻨﭩﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﺎﺭ ﺗﻮﮌ ﮐﺮ ﻻﯾﺎ۔ ﻣﺎﻟﮏ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺍﻧﺎﺭ ﭼﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﺳﺨﺖ ﮐﮭﭩﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﻮ ﺗﻮﮌﺍ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﮐﮭﭩﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﮐﻮ ﺁﻭﺍﺯ ﺩﯼ۔ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻣﯿﭩﮭﮯ ﺍﻧﺎﺭ ﻻﻧﮯ ﮐﻮ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ، ﺗﻢ ﮐﮭﭩﮯ ﺍﻧﺎﺭ ﻟﮯ ﺁﺋﮯ


۔


ﻭﮦ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺎﺭ ﻟﮯ ﺁﺋﮯ۔ ﻣﺎﻟﮏ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺗﻮﮌﺍ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﮐﮭﭩﮯ ﻧﮑﻠﮯ۔ ﻣﺎﻟﮏ ﺳﺨﺖ ﻧﺎﺭﺍﺽ ﮨﻮﺍ۔ ﺗﻢ ﺍﺗﻨﮯ ﺳﺎﻟﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﺱ ﺑﺎﻍ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻡ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﻮ۔ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺁﺝ ﺗﮏ ﮐﮭﭩﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﭩﮭﮯ ﺍﻧﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﯿﺰ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ؟

ﻣﺒﺎﺭﮎ ﻧﮯ ﻋﺮﺽ ﮐﯿﺎ ﺁﻗﺎ ! ﺑﻼﺷﺒﮧ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﭩﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﭩﮭﮯ ﺍﻧﺎﺭﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﯿﺰ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺁﺝ ﺗﮏ ﺍﺱ ﺑﺎﻍ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻧﺎﺭ ﮐﮭﺎﯾﺎ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﮐﮭﭩﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﭩﮭﮯ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﯿﺰ ﮐﯿﺴﯽ؟

ﻣﺎﻟﮏ ﻧﮯ ﺟﺐ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺳُﻨﺎ ﺗﻮ ﺳﻨﺎﭨﮯ ﻣﯿﮟ ﺁ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﺟﮧ ﭘﻮﭼﮭﯽ۔

ﻣﺒﺎﺭﮎ ﺑﻮﻟﮯ : ﺁﭖ ﻧﮯ ﺑﺎﻍ ﮐﯽ ﺭﮐﮭﻮﺍﻟﯽ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﭙﺮﺩ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ، ﺍﺱ ﮐﺎ ﭘﮭﻞ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ۔

ﺑﺎﻍ ﮐﮯ ﻣﺎﻟﮏ ﻧﮯ ﺟﺐ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺳُﻨﺎ ﺗﻮ ﻧﮩﺎﯾﺖ ﻣﺘﻌﺠﺐ ﮨﻮﺍ۔ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﮐﮯ ﺗﻘﻮﯼٰ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺎﻧﺖ ﺩﺍﺭﯼ ﭘﺮ ﻣﮩﻤﺎﻥ ﺷﺸﺪﺭ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ۔

ﺑﺎﻍ ﮐﮯ ﻣﺎﻟﮏ ﮐﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﺟﻮﺍﻥ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﻮﺯﻭﮞ ﺭﺷﺘﮯ ﮐﺎ ﻣﺘﻼﺷﯽ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺫﮨﻦ ﻣﯿﮟ ﺁﯾﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﮍﮪ ﮐﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺷﺨﺺ ﻣﻮﺯﻭﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﺎ۔

ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ : ﺍﮔﺮ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﭘﻨﺎ ﺩﺍﻣﺎﺩ ﺑﻨﺎ ﻟﻮﮞ ﺗﻮ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﮐﯿﺎ ﺧﯿﺎﻝ ﮨﮯ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﯾﮩﻮﺩ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﯽ ﻣﺎﻟﺪﺍﺭﯼ ﮐﻮ ،ﻋﯿﺴﺎﺋﯽ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺗﯽ ﮐﻮ ﺍﻭﺭ ﺍُﻣﺖِ ﻣﺤﻤﺪﯾﮧ ﮐﮯ ﻟﻮﮒ ﺗﻘﻮﯼٰ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﻨﺪﺍﺭﯼ ﮐﻮ ﻣﻌﯿﺎﺭ ﭨﮭﮩﺮﺍﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔

ﻣﺎﻟﮏ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺳُﻨﺎ ﺗﻮ ﻣﺰﯾﺪ ﻣﺘﺎﺛﺮ ﮨﻮﺍ۔ ﮔﮭﺮ ﺁﮐﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﮨﻠﯿﮧ ﺳﮯ ﻣﺸﻮﺭﮦ ﮐﯿﺎ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺑﻼﺷﺒﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﺳﮯ ﺑﮩﺘﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺭﺷﺘﮧ ﻧﻈﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﺎ۔ ﯾﻮﮞ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﮐﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﺍﺱ ﺑﺎﻍ ﮐﮯ ﻣﺎﻟﮏ ﮐﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﺳﮯ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﺟﻮﮌﮮ ﮐﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﺮﮐﺖ ﺳﮯ ﻧﻮﺍﺯﺍ ۔ ﺍﻥ ﮐﮯ ﮨﺎﮞ ﺍﯾﮏ ﺑﯿﭩﺎ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺍ۔ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺭﮐﮭﺎ ﺟﻮ ﺑﮍﮮ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﻣﺤﺪﺙ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﻨﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻋﻠﻢ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺟﮩﺎﻥ ﮐﻮ ﻣﻨﻮﺭﮦ ﮐﯿﺎ۔

ﺩﻧﯿﺎ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺍﻣﺎﻡ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﺟﺎﻧﺘﯽ ﮨﮯ۔

‏( ﺳﻴﺮﺓ ﺍﻻﻣﺎﻡ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺍﻟﻤﺒﺎﺭﻙ ‏)

# ﺣﻼﻝ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﻧﯿﮑﯽ ﮐﯽ ﺗﻮﻓﯿﻖ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ، ﺍﭼﮭﮯ ﺍﺧﻼﻕ ﺟﻨﻢ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ، ﺑﺮﺍﺋﯽ ﺳﮯ ﻧﻔﺮﺕ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ، ﮔﻨﺎﮦ ﻣﭧ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﯽ ﺭﺿﺎ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺵ ﻧﻮﺩﯼ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ، ﺟﺲ ﮐﮯ ﻧﺘﯿﺠﮧ ﻣﯿﮟ ﺑﻨﺪﮦ ﺟﻨﺖ ﮐﺎ ﻣﺴﺘﺤﻖ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔

ﺟﺐ ﮐﮧ ﺣﺮﺍﻡ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﻧﯿﮑﯽ ﮐﯽ ﺗﻮﻓﯿﻖ ﺳﻠﺐ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ، ﺑﺮﺍﺋﯽ ﺁﺳﺎﻥ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﮯ، ﺑﺮﮮ ﺍﺧﻼﻕ ﺟﻨﻢ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ، ﻧﯿﮏ ﺍﻋﻤﺎﻝ ﻗﺒﻮﻝ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﺧﺪﺍ ﮐﯽ ﻧﺎﺭﺍﺿﮕﯽ ﻧﺼﯿﺐ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ۔ ﺟﺲ ﮐﮯ ﻧﺘﯿﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﺩﻭﺯﺥ ﻣﻘﺪﺭ ﺑﻦ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ۔

*نوٹ* اس پیغام کو دوسروں تک پہنچائیے تاکہ اللہ کسی کی زندگی کو آپ کے ذریعے بدل دے

𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼

  ❤️      ✍🏻ㅤ   📩      📤 

  ˡᶦᵏᵉ   ᶜᵒᵐᵐᵉⁿᵗ   ˢᵃᵛᵉ     ˢʰᵃʳᵉ

Saturday, 20 January 2024

👈 *جذبات_احساسات کی "ایکسپائری ڈیٹ" !!


👈 *جذبات_احساسات کی "ایکسپائری ڈیٹ" !!* 


ایک بوڑھے کسان نے اپنی بیمار بیوی کو گھوڑا گاڑی کی عقبی نشست پر لٹا دیا، خود وہ اگلی نشست پر سوار ہوا، گاڑی کو کھینچنے کے لیے اس کے آگے مریل سا گھوڑا جُتا ہوا تھا۔ اور یوں وہ اسے علاج کے لیے دور دراز شہر لے گیا۔

مسافت طویل تھی تو رستے میں اس کسان نے بولنا شروع کر دیا، وہ روانی سے بولتا جارہا تھا اور اپنا آپ کھولتا جارہا تھا یوں جیسے وہ خود سے بات کر رہا ہو، لیکن ساتھ ہی وہ اپنی بیمار بیوی کو تسلی بھی دے رہا ہو، جو چالیس سال تک اس کے ساتھ دکھوں، مصیبتوں، تکلیفوں، دردوں کو سہتے ہوئے مشقت میں اس کی بھرپور مدد کرتی رہی تھی۔ باہر کھیتوں میں اور گھر کے کام کاج کا بوجھ اکیلے اٹھانے کی مشقت..

کسان جیسے جیسے بولتا جارہا تھا اسے محسوس ہو رہا تھا کہ وہ گذشتہ برسوں میں اس کے ساتھ ظالمانہ اور غیر منصفانہ سلوک کرتا رہا ہے، اور اسے اب اس کے ساتھ نرمی اور محبت سے پیش آنا چاہیے، اور اسے میٹھے بول سے دلاسہ دینا چاہیے




اس نے اپنی بیوی کو بتانا شروع کر دیا کہ نہ صرف اس نے اس کے ساتھ ظلم کیا ہے، بلکہ زندگی نے بھی اس کے ساتھ ظلم کیا ہے، کیونکہ اسے اپنی روزمرہ کی زندگی میں اس سے کوئی مہربان لفظ کہنے ، ہمدردی کے دو میٹھے بول پیش کرنے ، یا اسے پانی جیسی پاکیزہ اور لطیف مسکراہٹ دینے کا وقت نہیں ملا، کٹھن حیات میں آسانی کا ایک لمحہ بھی اسے نہ دے سکا!

وہ شخص تمام راستے پچھتاوے کا احساس لیے یاسیت بھرے لہجے میں بغیر رکے بولتا رہا. ایک ندی کا پانی جس طرح پتھروں پر مسلسل گرتا رہتا ہے تو ان پر ان مٹ گہری لکیریں ڈال دیتا ہے، اسی طرح غم بھی انسانی روح پر کنندہ ہوچکے تھے .. وہ ان غموں کا مداوا کرنا چاہتا تھا، اور اپنے سابقہ روپے کی تلافی کے لیے محبت، نرمی اور ازدواجی زندگی میں گرمجوشی پیدا کرنے والے ان لفظوں کا سہارا لینا چاہتا تھا جو اس نے گذشتہ چالیس برسوں میں استعمال نہ کیے تھے. اس نے عقبی نشست پر لیٹی بیمار بیوی سے وعدے کرنے شروع کیے کہ باقی ماندہ زندگی وہ اس کے لیے وہ سب کچھ حاصل کرے گا جس کی اسے کبھی خواہش رہی تھی اور آئندہ بھی وہ خواہش کرے گی...

جب وہ شہر پہنچا تو آگے والی نشست سے اُٹھ کر عقبی نشست پر سے زندگی میں پہلی بار اسے اپنی بانہوں میں بھر کر اٹھایا اور ڈاکٹر کے پاس لے گیا، مگر ڈاکٹر نے دیکھتے ہی اسے کہا کہ یہ تو کب کی مر چکی ہے، وہ اب ایک سرد لاش کے سوا کچھ نہ تھی۔ طویل رستے میں زندگی پہلی بار اس کی میٹھی، شفقت بھری گفتگو سننے سے پہلے ہی وہ مر چکی تھی! 


مصنف: روسی ادیب انتون چیخوف

عربی زبان سے اردو قالب: توقیر بُھملہ


اور یہاں پر چیخوف کی لکھی ہوئی درد کی کہانی ختم ہوتے ہوئے ہمیں اس بوڑھے کسان کی طرح تنہا چھوڑ دیتی ہے جو اپنی بیوی کے آخری لمحات میں شاید اپنے آپ سے ہمدردی جتا رہا تھا، کیوں کہ جسے وہ سب کہنا چاہتا تھا اس کے لیے تو بہت دیر ہو چکی تھی۔

دوستو یاد رکھو الفاظ، احساسات اور جذبات کی بھی "ایکسپائری ڈیٹ" ہوتی ہے ایک وقت آتا ہے کہ الفاظ کارآمد نہیں رہتے اور وہ عدم معنی والی محض کھوکھلی آواز بن کر رہ جاتی ہے

ایک مقررہ وقت کے بعد ہم جو کہنا چاہتے ہیں وہ الفاظ اپنا مطلب کھوچکے ہوتے ہیں!

  ہم ایک دوسرے کی قدر و قیمت اس وقت تک نہیں جانتے جب تک وہ چیز ہم سے کھو نہ جائے، اور ایک دوسرے کی قدر کرنے سے تاعمر ہچکچاتے رہتے ہیں اور یوں تمام وقت ان کہی میں گزار دیتے ہیں، سچ کہتے ہیں کہ آخر وقت پر گلاب دینا اس سے بہتر ہے کہ زندگی میں اپنا سب کچھ ایک دوسرے کو دان کر دیں اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے۔

صحیح وقت پر شیریں سخن کرنا اس سے بہتر ہے کہ احساس و تعلقات ختم ہوجانے کے بعد طویل نظم لکھی جائے۔

دیر سے آنے والی چیزوں کا کوئی فائدہ نہیں، جیسے کہ مردہ کی پیشانی پر بوسہ لینا۔

"خوبصورت چیزوں کو ملتوی نہ کریں ... وہ دوبارہ نہیں ہوسکتی ہیں۔"


*نوٹ* اس پیغام کو دوسروں تک پہنچائیے تاکہ اللہ کسی کی زندگی کو آپ کے ذریعے بدل دے

𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼

  ❤️      ✍🏻ㅤ   📩      📤 

  ˡᶦᵏᵉ   ᶜᵒᵐᵐᵉⁿᵗ   ˢᵃᵛᵉ     ˢʰᵃʳᵉ

Friday, 19 January 2024

*اساتذہ کرام ضرور پڑھیے گا۔

 *اساتذہ کرام ضرور پڑھیے گا۔* 

1. کبهی بهی *بغیر مرض یا اشد ضرورت * کے  *رخصت* نہ لیں. اس سے آپ *دو گناہوں* کو جمع کریں گے: *جهوٹ* اور *حرام مال کھانا* , اور اللّٰہ کی قسم *اللّٰہ تعالی کا خوف اور تقویٰ*  سب سے *بہترین چیز* ہے.

2. اپنے طالب علموں کی *غلطیوں* سے *درگزر* کریں, کیونکہ نہ تو وہ فرشتے ہیں اور نہ شیاطین, اور آپ انکے مربی ہیں.

3 *. اپنے طالب علموں* کے لیے *اپنی محبت اور فکر* کا اظہار کریں, اس سے انکے *دلوں* میں آپکے لیے *بہترین جگہ* بنے گی.

4. یاد رکھیں, کہ بہت سے لوگ  *اپنے اساتذہ* کے *حوصلہ افزائی والے ایک جملے* سے *عظیم* بن گئے اور بلندیوں پہ پہنچ گئے, تو آپ بهی *عظیم لوگ بنانے والے بنیں۔* 

5. اپنے *معاملات* کو طلبہ کے ساتھ اچھا رکھیں تاکہ آپ *موت* کے بعد بهی ان کی *دعاؤں* کا حصہ بنے رهیں.

6. *آپکے وقت کا ہر منٹ طالب علم کا حق ہے,* اگر آپ *وقت ضائع* کرتے ہیں تو *قیامت* کے دن آپ سے اس کے بارے میں *پوچھا جائے گا* .

7. *آپکے بهی بچے* ہیں جو آپ جیسے اساتذہ کے پاس تعلیم حاصل کر رہے ہیں, آپ *اوروں کے بچوں* کے ساتھ اچھا معاملہ کریں تاکہ *آپکے بچوں* کے ساتھ بهی *اچھا معاملہ ہو.* 

8. اپنی *نیت کو خالص* رکھیں, *اجر کی امید اور اخلاص* سے کام کریں تو آپکا *پورا دن نیکیوں* میں لکھا جائے گا۔   

 *نوجوان نسل کی اصلاح کرکے اپنے لیے صدقہ جاریہ بنائیں...*

                *جزاکم اللہ تعالی خیرا


Thursday, 18 January 2024

*بد نظری کا علاج*🤔

 *بد نظری کا علاج* 


اس روحانی بيمارى كا علاج كئى ايك طريقوں سے ہو سكتا ہے:

پہلا طريقہ تو شادى ہے اسے شادى كر لينى چاہيے،

 كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ كا فرمان ہے:

" جب تم ميں سے كوئى شخص كسى عورت كے محاسن كو ديكھے تو وہ اپنى بيوى كے پاس آئے كيونكہ اس كى بيوى كے ساتھ بھى وہى كچھ ہے جو اس عورت كے ساتھ تھا "

اس سے شہوت ٹوٹ جاتی ہے.




دوم:

اسے نماز پنجگانہ كى پابندى كرنى چاہيے، اور تہجد كے وقت اللہ سے عاجز و انكسارى كے ساتھ دعا كرے، اور نماز پورے خشوع و خضوع اور دل كے ساتھ ادا كرنى چاہيے، اور درج ذيل دعا كثرت سے كيا كرے:

" يا مقلب القلوب ، ثبت قلبي على دينك "

اے دلوں كو الٹنے والے، ميرے دل كو اپنے دين پر ثابت ركھ "

" يا مصرف القلوب صرف قلبي إلى طاعتك "

اے دلوں كو پھيرنے والے، ميرے دل كو اپنى اطاعت کی طرف پھیر دے 

كيونكہ جب بھى وہ مستقل طور پر ہميشہ عاجزى و انكسارى سے يہ دعا كريگا تو اللہ سبحانہ و تعالى اس كے دل كو اس بيمارى سے پھير دے گا

سوم:

وہ اپنے آپ كو بے بردہ عورتوں والى جگہوں سے دور ركھے، اور اسى طرح فحاشى كے ٹى وي چينلوں سے بھى دور رہے جو گندى فلميں اور تصاوير پيش كرتے رہتے ہيں جو دل ميں اثر كر كے اسے كمزور كر ديتى ہيں.

چہارم

پھر بھی اگر کوئی غلطی ھو جائے تو کثرت سے توبہ استغفار کرے ھر گز مایوس نہ ھو اور اپنے نفس کے اوپر کچھ جرمانہ کرے مثلاً بیس نفلیں پڑھے یا پانچ سو روپے صدقہ کرے





دکان کا نام مقدس کلمات کے ساتھ رکھنا*

 *دکان کا نام مقدس کلمات کے ساتھ رکھنا* 

سوال:

بہت سارے لوگ اپنی دکانوں کا نام الرحمن کمپیوٹرس، الحمد بیکری یا الرازق الیکٹرک وغیرہ رکھتے ہیں۔ مجھے بتائیں کہ کیا اس طرح کے نام درست ہیں؟

جواب نمبر: 11865

بسم الله الرحمن الرحيم

فتوی: 640=536/د

 پہلا اور تیسرا نام جائز نہیں ہے، اسمائے باری تعالیٰ کی سخت بے ادبی ہے، دوسرا نام بھی خلاف ادب ہے، لہٰذا تینوں ہی قسم کے ناموں سے احتراز کرنا ضروری ہے۔

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء،

دارالعلوم دیوبند

💦 *اذان اور نماز کی فضیلت !*

 💦 *اذان اور نماز کی فضیلت !*

🔹 *نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ*

*اگر لوگوں کو معلوم ہوتا کہ اذان کہنے اور نماز پہلی صف میں پڑھنے سے کتنا ثواب ملتا ہے۔*

*پھر ان کے لیے قرعہ ڈالنے کے سوائے اور کوئی چارہ نہ باقی رہتا،*

 *تو البتہ اس پر قرعہ اندازی ہی کرتے*

*اور اگر لوگوں کو معلوم ہو جاتا کہ نماز کے لیے جلدی آنے میں کتنا ثواب ملتا ہے*

*تو اس کے لیے دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے۔*

*اور اگر لوگوں کو معلوم ہو جاتا کہ عشاء اور صبح کی نماز کا ثواب کتنا ملتا ہے،*

*تو ضرور کولہوں کے بل گھسیٹتے ہوئے ان کے لیے آتے.*🔹

*📗«صحیح بخاری-61

*📚 مسـنون وضـــو کی مکمل تــرتیب:*

 *📚 مسـنون وضـــو کی مکمل تــرتیب:*

*💗 ۱۔ وضو کرنے سے پہلے دل میں وضو کرنے کی نیت کریں۔*

✨ ۲۔ وضو کے شروع میں ’’بسم ﷲ‘‘ ضرور پڑھنی چاہیے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا:

*🌷 ’’بسم ﷲ‘‘ کہہ کر وضو کرو۔‘‘*

📑 نسائی، الطھارۃ، باب التسمیۃ عند الوضوء، ۸۷۔ ابن خزیمۃ: ۴۴۱ امام نووی نے اس کی سند کو جید کہا ہے۔

*📛 واضح رہے کہ وضو کی ابتدا کے وقت صرف ’’بسم ﷲ‘‘ کہنا چاہیے۔ ’’الرحمن الرحیم‘‘ کے الفاظ کا اضافہ سنت سے ثابت نہیں۔*

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

*📍’’جو شخص وضو کے شروع میں بسم اللّہ نہیں کہتا اس کا وضو نہیں۔‘‘*

📃 ابود اؤد، الطھارۃ باب التسمیۃ علی الوضوء: ۱۰۱، حافظ منذری وغیرہ نے شواہد کی بنا پر حسن کہا۔

*🌸 اگر بسم ﷲ بھول گئی اور وضو کے دوران یاد آئی تو فوراً پڑھ لے وضو دوبارہ کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ بھول معاف ہے۔* 

🧼 ۳۔ سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ

*🚿 ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زینب رضی اللہ عنہا کو غسل دینے والیوں سے کہا داہنی طرف سے اور وضو کے مقاموں سے ان کا غسل شروع کرو۔‘‘*

📑 بخاری: ۷۶۱، مسلم: الجنائز باب فی غسل المیت۲۴۔۹۳۹

*🌷 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جوتی پہننے، کنگھی کرنے، طہارت کرنے اور غرض تمام کاموں میں دائیں طرف سے شروع کرنا پسند فرماتے۔*

📃 بخاری، الوضوء باب التیمن فی الوضوء والغسل، ۸۶۱، مسلم، الطھارۃ باب التیمن فی الطھور وغیرہ، ۸۶۲.

*🚰 ۴۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ تین بار دھوئے۔*

📑 بخاری، الوضوء، باب الوضوء ثلاثا، ثلاثا، ۹۵۱ ومسلم: ۶۲۲.

*🌹 ۵۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وضو مکمل کرو اور ہاتھوں کو دھوتے وقت ہاتھوں کی انگلیوں کے درمیان خلال کرو، اور ناک میں پانی چڑھانے میں مبالغہ کرو سوائے اس کہ تم روزہ دار ہو۔* 

(یعنی روزہ کی حالت میں مبالغہ نہ کرو)

📃 ابو داود، الطھارۃ باب فی الاستنثار، ۲۴۱۔ ترمذی، الطھارۃ، باب فی تخلیل الاصابع، ۸۳۔ اسے ترمذی، حاکم ۱/۷۴۱، ۸۴۱ اور نووی نے صحیح کہا۔

*✨ ۶۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چلو لے کر آدھے سے کلی کی اور آدھا ناک میں ڈالا اور ناک کو بائیں ہاتھ سے جھاڑا، یہ عمل تین دفعہ کیا۔*

📑 بخاری، الوضوء باب من مضمض واستنشق من غرفۃ واحدۃ، حدیث ۱۹۱ و باب الوضوء من التور، ۹۹۱،۔ مسلم:۵۳۲.

*🚰 ۷۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار منہ دھویا۔*

📃 بخاری، الوضوء، باب مسح الراس کلہ ۵۸۱ ومسلم، الطھارۃ باب: فی وضوء النبیV ۵۳۲.

*🌸 ۸۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم داڑھی کا خلال کرتے تھے۔*

📑 ترمذی، الطھارۃ، باب ماجاء فی تخلیل اللحیۃ، ۱۳ ابن حبان اور ابن خزیمہ نے صحیح کہا۔

*📖 سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے*

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب وضو کرتے تو پانی کا ایک چلو بھر کے اپنی ٹھوڑی کے نیچے داخل کرتے اور اس کے ساتھ اپنی داڑھی کا خلال کرتے اور فرماتے کہ

*🌹 ’’میرے رب نے مجھے اس طرح کرنے کا حکم دیا ہے۔‘‘*

📃 ابو داؤد، الطھارۃ تخلیل اللحیۃ،۵۴۱.

*✨ ۹۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دایاں ہاتھ کہنی تک تین بار دھویا پھر بایاں ہاتھ کہنی تک تین بار دھویا۔*

📑 بخاری، الصوم باب سواک الرطب والیابس للصائم، ۴۳۹۱ ومسلم: ۶۲۲.

*🏵 ۱۰۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر کا مسح کیا۔ دونوں ہاتھ سر کے اگلے حصہ سے شروع کرکے گدی تک پیچھے لے گئے۔ پھر پیچھے سے آگے اسی جگہ لے آئے جہاں سے مسح شروع کیا تھا۔*

📃 بخاری: الوضوء، باب: مسح الرأس: ۵۸۱، مسلم: ۵۳۲.

*🌸 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر کا ایک دفعہ مسح کیا۔*

📑 بخاری: ۶۸۱، مسلم الطھارۃ باب فی وضوء النبی۸۱۲۔( ۵۳۲).

*🌹 عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے وضو میں سر کا مسح تین بار کیا اور فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے ہوئے دیکھا۔*

📃 ابو داؤد، الطھارۃ صفۃ وضوء النبی۷۰۱.

یعنی سر کا مسح تین دفعہ کرنا بھی جائز ہے۔

*🌷 ۱۱۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کانوں کا مسح کیا شہادت کی انگلیاں دونوں کانوں کے سوراخوں میں ڈال کر کانوں کی پشت پر انگوٹھوں کے ساتھ مسح کیا۔*

📑 ابن ماجہ، الطھارۃ، باب ماجاء فی مسح الاذنین، ۹۳۴، ترمذی، الطھارۃ، مسح الاذنین ظاھر ھما و باطنھما، حدیث ۶۳ اسے ابن خزیمہ ۱/۷۷ حدیث ۸۴۱ نے صحیح کہا۔

💕 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:💕

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

انسان کے ہر ایک جوڑ پر صدقہ لازم ہوتا ہے ہر دن جس میں سورج طلوع ہوتا ہے پھر اگر وہ انسانوں کے درمیان انصاف کرے تو یہ بھی ایک صدقہ ہے اور کسی کو سواری کے معاملے میں اگر مدد پہنچائے اس طرح پر کہ اسے اس پر سوار کرائے یا اس کا سامان اٹھا کر رکھ دے تو یہ بھی ایک صدقہ ہے اور اچھی بات منہ سے نکالنا بھی ایک صدقہ ہے اور ہر قدم جو نماز کے لیے اٹھتا ہے وہ بھی صدقہ ہے اور اگر کوئی راستے سے کسی تکلیف دینے والی چیز کو ہٹا دے تو وہ بھی ایک صدقہ ہے۔

(صحيح البخاري: 2989)

😭*موجودہ دور کی سبق آموز تحریر*😭

 *موجودہ دور کی سبق آموز تحریر*

*ہوٹل کے کمرے میں محبت کا حق ادا کرنے کے بعد لڑکا اور لڑکی برہنہ حالت میں لیٹے محبت کی باتیں کررہے تھے.... لڑکا جانوں یہ لمحے بہت قیمتی ہیں چلو ایک وڈیو بناکر ان کو یادگار کے لئے قید کرلیتے ہیں.... لڑکی نہیں جان ایسے مت کرو تم وڈیو لیک کردو گے لڑکا تمہیں مجھ پر شک ہے؟ جان تمہیں میری قسم ایک وڈیو بنانے دو تمہارے سر کی قسم ڈلیٹ کردوں گا...لڑکی جان تم سر کی قسم مت دیا کرو, چلو بنالو.*

*عزت ہوٹل کے کمرے میں نیلام کرکے وہ محبوب کی یادوں میں اُڑتی گھر آکر سوگئی... یادرہے وہ گھر سے سہیلی سے ملنے کا بہانہ لگاکر گئی تھی... صبح جب وہ اُٹھی تو اُسکی وہ برہنہ وڈیو انٹرنیٹ پر وائرل ہوچکی تھی...بھائیوں نے اُسی وقت مارکر دفن کردیا....لوگوں کو بتایا اُسے سر درد ہوا اور وہ مرگئی...ایسی لڑکیوں کو بغیر جنازے کے راتوں رات لاوارثوں کی طرح دفنا دیا جاتا ہے....یہ کوئی کہانی نہیں ہے ایک سچ ہے جو ناجانے کتنی لڑکیوں کے ساتھ ہوچکا ہے.....!!!*

*اے بنتِ حوا گاڑیوں میں گھومنا مہنگے تحفے لینا آئی فون لینا...ہوٹلوں میں محبوب کے ساتھ کھانے کھانا تمہیں یہ دنیا بہت اچھی لگتی ہوگی....پر یاد رہے یہ ایک بھیانک دنیا ہے. اس کا انجام ذلت اس کے بعد قتل اور بغیر جنازے کے تدفین ہے...* 

*بنتِ حوا آپ کے بابا نے زمانے کی خاک چھان کر آپ کو جوان کیا ہے... آپ کو تعلیم دلوائی کسی قابل بنایا اُس باپ کی عزت کا کچرہ محبت کی آڑ میں مت کرو...اس دنیا میں سب مل جاتا ہے پر گئی عزت دوبارہ نہیں ملتی.....*

*سنبھل جاؤ اس سے پہلے کہ لاوارث موت تمہارا مقدر بنے.*

انتہائی ادب سے گزارش ہے 😴🙏

 انتہائی ادب سے گزارش ہے  

 جتنا پردہ عورت پر فرض ہے اتنا پردہ مرد پر  بھی فرض ہے کچھ مرد حضرات جان بوجھ کر  راستوں میں پیشاب کرنا فرض اولین سمجھتے ہیں اس کے بعد ناڑا پکڑ کر ہاتھ اندر ڈال کر راستوں میں اِدھر ُادھر گھومتے پھرتے ہیں  اور یہ گھناؤنا عملِ گناہ کھلے عام شاہراٶں  اور مصروف راستوں پر ہم لوگ بڑے فخر سے کرتے ہیں

 

بغیر کسی عذر کے مجبوری کے  راستوں میں بیٹھ کر پیشاب کرنا اسلام اور انسانیت کی خلاف ہے  


اپنی حاجت پوری کرنے کےلیۓ کسی محفوظ اور پردے والے جگہ بیٹھ کر پیشاب کریں اور وہیں پر ضروری صفائی کریں یہ عمل راہ گزرتی خواتین کے لیۓ انتہائی تکلیف دہ عمل ہے 

  

اللہ تعالٰی نے ہم لوگوں کو اشرف المخلوقات پیدا کیا ہے کام بھی اشرف المخلوقات والے کرنے چاہٸیں

کوئی ناراض نہ ہو پوسٹ کو اصلاحی پوسٹ سمجھ کر پڑھیں ماٸیں بہنیں سب کے گھروں میں ہیں جہالت سے نکلیں

Tuesday, 16 January 2024

*.استاد محترم کو میرا سلام کہنا*


*.استاد محترم کو میرا سلام کہنا* 

ایوب خان ملکۂ برطانیہ اور ان کے شوہر کو پاکستان دورے کے دوران برن ہال سکول ایبٹ آباد لے گئے، ملکہ تو ایوب خان کے ساتھ بچّوں سے ہاتھ ملاتی آگے بڑھ گیئں، اُن کے شوہر بچّوں سے باتیں کرنے لگے، پُوچھا کہ بڑے ہو کے کیا بننا ہے، بچّوں نے کہا ڈاکٹر، انجنیئر، آرمی آفیسر،  پائلٹ، وغیرہ وغیرہ۔ وہ کچھ خاموش ہو گئے.

پھر لنچ پر  ایوب خان سے کہا کہ آپ کو اپنے ملک کے مستقبل کا کچھ سوچنا چاہیے۔ میں نے بیس بچّوں سے بات کی۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ اسے ٹیچر بننا ہے اور یہ بہت خطرناک ہے...   

ایوب خان صرف مسکرا دیے. کچھ جواب نہ دے سکے اور یہ ہمارے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔

 انگریز حکومت نے حضرت علامہ اقبالؒ ؒکو سر کا خطاب دینے کا ارادہ کیا تو حضرت علامہ اقبالؒ کو وقت کے گورنر نے اپنے دفتر آنے کی دعوت دی.

حضرت علامہ اقبالؒ نے یہ خطاب لینے سے انکار کر دیا۔ جس پر گورنر بے حد حیران ہؤا۔ وجہ دریافت کی تو حضرت علامہ اقبالؒ نے فرمایا: ’’میں صرف ایک صورت میں یہ خطاب وصول کر سکتا ہوں کہ پہلے میرے استاد مولوی میر حسنؒ کو ’’شمس العلماء‘‘ کا خطاب دیا جائے‘‘۔

یہ سن کر انگریز گورنر نے کہا:

”ڈاکٹر صاحب! آپ کو تو ’’سر‘‘ کا خطاب اس لیے دیا جا رہا ہے کہ آپ بہت بڑے شاعر ہیں۔ آپ نے کتابیں تخلیق کی ہیں، بڑے بڑے مقالات تخلیق کیے ہیں۔ بڑے بڑے نظریات تخلیق کیے ہیں۔ لیکن آپ کے استاد مولوی میر حسنؒ صاحب نے کیا تخلیق کیا ہے‘‘

یہ سن کر حضرت علامہ اقبالؒ نے جواب دیا کہ: ’’مولوی میر حسنؒ نے اقبالؒ تخلیق کیا ہے.‘‘

یہ سن کر انگریز گورنر نے حضرت علامہ اقبالؒ کی بات مان لی اور اْن کے کہنے پر مولوی میر حسن ؒ کو ’’شمس العلماء‘‘ کا خطاب دینے کا فیصلہ کر لیا۔ اس پر مستزاد علامہ صاحب نے مزید کہا کہ: ’’میرے استاد مولوی میر حسنؒ کو ’’شمس العلماء‘‘ کا خطاب دینے کے لیے یہاں سرکاری دفاتر میں نہ بلایا جائے بلکہ اْن کو یہ خطاب دینے کے لیے سرکاری تقریب کو سیالکوٹ میں منعقد کیا جائے، یعنی میرے استاد کے گھر.‘‘

اور پھر ایسا ہی کیا گیا۔ مولوی میر حسنؒ کو آج کوئی بھی نہ جانتا اگر وہ حضرت علامہ اقبالؒ کے استاد نہ ہوتے۔ لیکن آج وہ شمس العلماء مولوی میر حسنؒ ؒکے نام سے جانے جاتے ہیں۔

استاد کا مقام اور عظمت ہر شے سے بُلند ہے۔ 

 ان اساتذہ کے نام۔ 

جنہوں نے مجھے انسان بنایا۔

*کیا آج آپنے درودِ پاک پڑھا؟*

*صلی اللہ علیہ والہ وسلم*

*نوٹ* اس پیغام کو دوسروں تک پہنچائیے تاکہ اللہ کسی کی زندگی کو آپ کے ذریعے بدل دے 

🩵 *ٹیپو سلطان شہیدؒ نے اپنے اکثر خوابوں کا ریکارڈ رکھا*


🩵 *ٹیپو سلطان شہیدؒ نے اپنے اکثر خوابوں کا ریکارڈ رکھا*

 اور اس کیلئے باقاعدہ ایک رجسٹر بنایا ۔ اسے جب بھی کوئی خواب آتا اور وہ اس خواب کی صداقت پر یقین رکھتا تو صبح اٹھ کر پہلا کام یہ کرتا کہ اس خواب کوایک رجسٹر میں درج کرتا اور اس کے ساتھ ہی اس کی تعبیر بھی لکھ دیتا ۔ 

           ہر انسان اپنے خوابوں کو چھپاتا ہے ۔ یہ شاید اس کی فطرت میں داخل ہے یا یہ کوئی جبلی جذبہ ہے ۔ بہرحال سلطان نے ان خوابوں کا ذکر اپنے عزیز ترین دوستوں سے بھی کبھی نہ کیا اور رجسٹر تو وہ اپنے بستر میں چھپا کر سوتا تھا ۔

تاریخی شہادت : لندن کی انڈیا آفس لائبریری میں ایک عجیب وغریب مسودہ محفوظ ہے ۔ اس مسودے میں سلطان ٹیپو کے اپنے ہاتھ سے لکھے ہوئے وہ خواب درج ہیں جن کا عرصہ تقریبا پندرہ سال بنتا ہے ۔ مئی 1799 ء میں جب سرنگا پٹم میں سلطان ٹیپو کو شکست ہوگئی اور وہ شہید ہوگیا تو اس کے محل کی تلاشی لی گئی ۔ اس تلاشی کے دوران اس کی خوابگاہ سے ایک رجسٹر برآمد ہوا ۔ جس پر سلطان کے اپنے ہاتھ کے لکھے ہوئے خواب درج ہیں ۔ ایک شخص حبیب اللہ سلطان کا خاص منشی تھا ۔ اس سے سلطان کی کوئی تحریر پوشیدہ نہ تھی لیکن جب یہ رجسٹر تلاشی لینے والی ٹیم کے سربراہ کرنل پیٹرک کے ہاتھ لگا اور اس نے حبیب اللہ کو دکھایا تو اس نے اس بات کی تصدیق کر دی کہ یہ تحریر واقعی سلطان کی ہے ۔

ایک خواب میں جو سُلطان ٹیپو نے اس وقت دیکھا جب ١۷٨٦ء میں بیک وقت انہیں مرہٹوں اور نظام دکن سے مقابلہ درپیش تھا۔روزِ محشر کا نقشہ نظر کے سامنے ہے۔چاروں طرف نفسانفسی کا عالم ہے۔اسی عالمِ اِضطراب و التہاب میں یکایک ایک نہایت خوبصورت ، وجیہہ اور روشن آنکھوں والے بُزُرگ سُلطان کا ہاتھ تھام لیتے ہیں اور پوچھتے ہیں:

" جانتے ہو میں کون ہوں؟"

سُلطان لاعِلمی کا اِظہار کرتے ہیں تو وہ بُزُرگ فرماتے ہیں:

" میں علی ( کرم ﷲ وجہہ ) ہوں۔ جوہرِ آئینۂ تجلیاتﷺ نے فرمایا ہیکہ میں تمہارے بغیر جنّت میں قدم نہیں رکھوں گا۔میں تمہارا اِنتظار کروں گا اور تمہیں ساتھ لے کر جنّت میں جاؤں گا۔"

خواب بیان کر کے سُلطان نے لِکھا کہ:

" جب میں جاگا تو خوشی سے میرا تمام جِسم کانپ رہا تھا۔ﷲ تعالیٰ قادرِ مُطلق ہے اور رسول ﷲ صلی علیہ وآلہ وسلم شافع روزِ جزا ہیں۔"

(چند یادیں چند تاثرات، صفحہ: ٣٦۴ )

سِیرتُ النّبی بعد از وصال النّبی صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم،حِصّہ چہارم، صفحہ: ٣١۷ )

*نوٹ* اس پیغام کو دوسروں تک پہنچائیے تاکہ اللہ کسی کی زندگی کو آپ کے ذریعے بدل دے 

👈 *ﺧــﻮﺵ ﻧـﺼـﯿـﺐ ﭼــﺮﻭﺍھــﺎ* 👉


➖▪️➖🌹🌹➖▪️➖

👈 *ﺧــﻮﺵ ﻧـﺼـﯿـﺐ ﭼــﺮﻭﺍھــﺎ* 👉

ﺍﺑﻮ ﻣﺤﺬﻭﺭﮦ ﺍﺑﮭﯽ ﻧﻮ ﻋﻤﺮ ﺗﮭﺎ، ﻣﺴﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﮭﯿﮕﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔

 ﺍﺱ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺑﮩﺖ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺗﮭﯽ۔
 ﻭﮦ ﻣﮑﮧ ﮐﺎ ﺑﺎﺳﯽ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﮑﮧ ﻓﺘﺢ ﮨﻮ ﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻣﮕﺮ ﺍﺑﮭﯽ ﻭﮦ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﯽ ﻧﻌﻤﺖ ﺳﮯﻣﺤﺮﻭﻡ ﺗﮭﺎ۔

 ﻣﮑﮧ ﮐﮯ ﺩﯾﮕﺮ ﻧﻮ ﺟﻮﺍﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺑﮑﺮﯾﺎﮞ ﭼﺮﺍﯾﺎ ﮐﺮﺗﺎ۔ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﮑﺮﯾﺎﮞ ﭼﺮﺍﺗﺎ ﮨﻮﺍ
 ﺍﯾﮏ ﻭﺍﺩﯼ ﺳﮯ ﮔﺰﺭ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔
 ﺍﺩﮬﺮ ﷲ ﮐﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ ﺑﮭﯽ ﮐﺴﯽ ﺟﻨﮓ ﻣﯿﮟ ﺷﺮﮐﺖ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﮔﺰﺭ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔ 

ﺍﯾﮏ ﻭﺍﺩﯼ ﻣﯿﮟ ﭘﮍﺍﺅ ﮈﺍﻻ ﮔﯿﺎ۔ ﻇﮩﺮ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﺎ ﻭﻗﺖ ﮨﻮﺍ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺣﻀﺮﺕِ ﺑﻼﻝ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﮭﮍﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﻠﻨﺪ ﺁﻭﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﺍﺫﺍﻥ ﺩﯾﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯽ۔ ﺣﻀﺮﺕِ ﺑﻼﻝ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﯽ ﺑﻠﻨﺪ ﺁﻭﺍﺯ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﻭﺍﺩﯼ ﻣﯿﮟ ﺑﮑﺮﯾﺎﮞ ﭼﺮﺍﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﺑﻮ ﻣﺨﺬﻭﺭﮦ ﻧﮯ ﺳﻦ ﻟﯽ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺩﻝ ﻟﮕﯽ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻧﻘﻞ ﺍُﺗﺎﺭﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﺩﯼ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺳﺎﺗﮭﯽ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺳﻦ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺑﻼﻝ ﺍﺫﺍﻥ ﺩﯾﺘﮯ ﺭﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺑﻮ ﻣﺨﺬﻭﺭﮦ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻧﻘﻞ ﺍُﺗﺎﺭﺗﮯ ﺭﮨﮯ۔ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﺴﺨﺮ ﺗﮭﺎ ﻣﮕﺮ ﺁﻭﺍﺯ ﻏﻀﺐ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﭘﮭﺮ ﺍﺑﻮ ﻣﺨﺬﻭﺭﮦ ﮐﯽ ﻗﺴﻤﺖ ﺟﺎﮒ ﺍُﭨﮭﯽ، ﺍﺱ ﮐﯽ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺁﻭﺍﺯ ﮐﻮ ﺳﺮﻭﺭِ ﮐﺎﺋﻨﺎﺕ ﻧﮯ ﺳﻤﺎﻋﺖ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ، ﺁﻭﺍﺯ ﺍﭼﮭﯽ ﻟﮕﯽ۔ ﺍﺫﺍﻥ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﻮ ﺣﻀﺮﺕِ ﻋﻠﯽ ﺍﻭﺭ ﺣﻀﺮﺕِ ﺯﺑﯿﺮ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮩﻢ ﮐﻮ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ ﺍﺱ ﺍﺫﺍﻥ ﺩﯾﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﻮ ﻟﮯ ﺁﺋﯿﮟ۔ ﻭﮦ ﭘﮩﺎﮌ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﮔﺌﮯ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﮐﻮ ﭘﮑﮍﺍ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﷺ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺁﺋﮯ۔ ﺁﭖ ﷺ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ *" ﺗﻢ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﺑﮭﯽ ﺍﺑﮭﯽ ﮐﺲ ﻧﮯ ﺍﺫﺍﻥ ﺩﯼ "۔* ﺍﺏ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺣﺠﺎﻟﺖ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮨﻮﺋﯽ۔ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺗﻮ ﺗﻤﺴﺨﺮﺍﻧﮧ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺍﺫﺍﻥ ﺩﮮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﺁﭖﷺ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﮐﻮ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ 
*" ﺗﻢ ﺍﺫﺍﻥ ﺩﻭ " ۔*
ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﺫﺍﻥ ﮐﮩﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯽ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﻧﮧ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﺏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﻮ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﮨﻮﺍ۔ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﮭﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﻧﮧ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﺏ ﺍﺑﻮ ﻣﺨﺬﻭﺭﮦ ﮐﻮ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﮨﻮﺍ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺩﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍُﺗﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺗﮭﯽ۔
ﺍﺭﺷﺎﺩ ﮨﻮﺍ :: *" ﺗﻢ ﻧﮯ ﺍﺑﮭﯽ ﺍﺑﮭﯽ ﺍﺫﺍﻥ ﺩﯼ ﮨﮯ "۔* ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ : ﮨﺎﮞ۔
ﺍﺏ ﺁﭖ ﷺ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﮨﺎﺗﮫ ﮐﻮ ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮬﺎﯾﺎِ ﺍﺑﻮ ﻣﺨﺬﻭﺭﮦ ﮐﺎ ﻋﻤﺎﻣﮧ ﺍُﺗﺎﺭﮦ، ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺮ ﭘﺮ ﺩﺳﺖِ ﺷﻔﻘﺖ ﭘﮭﯿﺮﺍ ﺍﻭﺭ ﺩﻋﺎ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ:۔۔ 
*" ﺍﮮ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﺱ ﺑﭽﮧ ﻣﯿﮟ ﺑﺮﮐﺖ ﺩﮮ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﯽ ﮨﺪﺍﯾﺖ ﻓﺮﻣﺎ " ۔*
ﺍﺑﻮ ﻣﺨﺬﻭﺭﮦ ﮐﯽ ﮐﯿﻔﯿﺖ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﮔﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺭﺳﻮﻝﷺ ﮐﺎ ﻟﻤﺲ، ﻭﮦ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﮨﺎﺗﮫ ﻟﻤﺲ ﮐﯽ ﻟﺬﺕ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻗﺴﻤﺖ ﺟﺎﮒ ﺍُﭨﮭﯽ، ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ۔
*اشھد اللہ الہ الا اللہ واشھد ان محمد رسول اللہ*
ﺍﺏ ﺁﭖ ﷺ ﻧﮯ ﺍﺑﻮ ﻣﺨﺬﻭﺭﮦ ﮐﻮ ﻣﺰﯾﺪ ﺑﺸﺎﺭﺕ ﺩﯼ ﺍﻭﺭ ﻭﻇﯿﻔﮧ ﻣﻘﺮﺭ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎَ 
*"ﺟﺎﺅ ﺗﻢ ﻣﮑﮧ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﺆﺫﻥ ﻣﻘﺮﺭ ﮐﯿﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﻮ۔ ﺍﺏ ﺗﻢ ﺍﮨﻞِ ﻣﮑﮧ ﮐﮯ ﻣﺆﺫﻥ ﮨﻮ "۔*
ﺍﺑﻮ ﻣﺨﺬﻭﺭﮦ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﺳﺎﺭﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺑﺎﻝ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﭩﻮﺍﺋﮯ ﮐﮧ ﺟﻦ ﺑﺎﻟﻮﮞ ﭘﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﻧﺒﯽ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﺩﺳﺖ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﭘﻬﯿﺮ ﺩﯾﺎ ﻭﮦ ﮐﯿﺴﮯ ﮐﭩﻮﺍ ﺩﻭﮞ ﻣﮑﮧ ﺍﻟﻤﮑﺮﻣﮧ ﻣﯿﮟ ﮐﻢ ﻭ ﭘﯿﺶ 300 ﺳﺎﻝ ﺗﮏ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﺑﻄﻮﺭ ﻣﺆﺫﻥ ﺍﺫﺍﻥ ﺩﯾﺘﯽ ﺭﮨﯽ۔
(صحابہ کرام کے واقعات)
*نوٹ* اس پیغام کو دوسروں تک پہنچائیے تاکہ اللہ کسی کی زندگی کو آپ کے ذریعے بدل دے 

*کبوتروں کی گُنبدِ خضریٰ سے محبت کا عالم :*


 *کبوتروں کی گُنبدِ خضریٰ سے محبت کا عالم :* 


۔"" "" "" "" "" "" "" "" "" "" "" "" "" "" "" ""

ایک مرتبہ اِنتظامیہ نے مسجدِ نبوی شریف ﷺ کے حرم کو صاف سُتھرا رکھنے کے لئے فیصلہ کیا کہ حرم شریف میں کبوتروں کے لئے دانہ نہ ڈالا جائے ، اس طرح کبوتر دانے کی تلاش کے لئے دوسری جگہوں پر منتقل ہو جائیں گے ۔ اس حُکم پر عمل کیا گیا اور کئی دن تک دانہ نہ ڈالا گیا ۔ مگر کبوتروں کی گُنبدِ خضریٰ سے محبت کا یہ عالم تھا کہ بُھوک سے مر رہے تھے، مگر آستانہء محبوب ﷺ چھوڑنے کے لئے تیار نہیں تھے ۔ اہلِ مدینہ نے اپنی آنکھوں سے یہ عشقُ محبت بھرا منظر دیکھا ۔ پھر دنیا میں یہ بات شُہرت پکڑ گئی تو لوگوں نے حکومت کو تار دیئے اور اِصرار کیا ، تب حکومت نے پھر حسبِ سابق کبوتروں کو دانہ ڈالنا شروع کیا ۔

( انوارِ قُطبِ مدینہ ، صفحہ ٥٤ )


یہ تمنّا ھے تیرے  ﷺ   شہر کے اندر ہوتا

میں تیرے ﷺ گُنبدِ خضریٰ کا کبوتر ہوتا


 عرب خبر رساں ادارےالعربیہ ڈاٹ نیٹ کی حرم پاک کے کبوتروں بارے دلچسپ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ذوالحجہ کے ابتدائی پانچ دنوں میں نیلگوں اور سبز پروں والے ان کبوتروں کے جھنڈ کے جھنڈ مکہ مکرمہ کی جانب آتے ہیں اور پھر حج کے مہینے ذوالحجہ کے وسط میں واپس مدینہ منورہ لوٹ جاتے ہیں۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ احرام یا اس کے بغیر کسی طور پر ان کبوتروں کا شکار جائز نہیں، ان کے شکار یا قتل کی صورت میں فدیہ واجب آ جاتا ہے۔ ان کبوتروں کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ یہ کبوتر ان کبوتروں کی نسل میں سے ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے کفار مکہ سے پناہ کیلئے غارِ ثور میں قیام کے دوران غار کے دھانے پر گھونسلے بنا ڈالے تھے، تاکہ کفار یہ خیال کریں کہ یہاں کوئی نہیں آیا، اگر آیا ہوتا تو غار میں داخل ہوتے وقت ضرور کبوتروں کے یہ انڈے  ٹکرانے سے ٹوٹ جاتے۔


کبوتروں کے حوالے سے ایک اور مشہور روایت یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ طوفان نوح کے وقت جب بارش تھم گئی اور حضرت نوح علیہ السلام نے خشک زمین بارے معلوم کرنا چاہا تو آپ نے ایک کبوتر کو خشکی کا پتہ معلوم کرنے کیلئے استعمال کیا تھا اور حرم پاک کے کبوتر اسی کبوتر کی نسل سے ہیں۔

*نوٹ* اس پیغام کو دوسروں تک پہنچائیے تاکہ اللہ کسی کی زندگی کو آپ کے ذریعے بدل دے 

𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼𓏼

  ❤️      ✍🏻ㅤ   📩      📤 

  ˡᶦᵏᵉ   ᶜᵒᵐᵐᵉⁿᵗ   ˢᵃᵛᵉ     ˢʰᵃʳᵉ